جن جن لوگوں نے شرطیں لگائی تھیں کہ وہ نہیں آئے گا وہ سب ہار گئے اور وہ آگیا جی ہاں نواز شریف جیسے پہلے دس سال کی ڈیل کر کے جدہ کے سرور پیلس میں گیا تھا اور پانچ سال میں ہی واپس آگیا تھا کہا جاتا ہے کہ اب بھی ڈیل کر گے لندن سے چار سال بعد واپس جاتی عمرہ پہنچ چکا ہے پاکستان میں مقتدر حلقے جب کسی کو گود لیتے ہیں تو مرتے دم تک اسے اکیلا نہیں چھوڑتے مثال کے طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے وہ وہ کام لیے چاہتے تو انہیں بیرون ملک بھجوا سکتے تھے مگر آخری دم تک اپنی نگرانی میں رکھا اسی طرح نواز شریف پر بڑی محنت کی گئی اسے زیرو سے ہیرو بنایا گیا بینظیر کے مقابلے میں اسے اس طرح سے تیار کیا گیا امیج بنایا گیا کہ وہ محبت وطن ہے اور بینظیر انڈین ایجنٹ جو سکھوں کی لسٹ انڈیا کو بھجوا دیتی ہے کرپٹ ہے اسکا خاوند ٹن پرسینٹ ہے چونکہ وہ مقتدر حلقوں کی مرضی کے بغیر عوامی طاقت سے اقتدار میں آئی تھی لہازہ اسے ٹک کر کام بھی نہیں کرنے دیا گیا نانٹیز کے ادوار میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کیسے اقتدار کی کرسی میوزیکل چیئر بن گئی تھی اب پھر سے نواز شریف کی ضرورت محسوس کی گئی بالکل اسی طرح سے عمران خان بھی عوامی طاقت سے مگر مقتدر حلقوں کی مرضی کے بغیر حکومت میں آئے تھے جی آپ کو یہ اچنبے کی بات لگے گی کیوں کہا یہی جاتا ہے کہ عمران خان فوج کی بیساکھی استعمال کر کے حکومت میں آئے جنرل پاشا نے اس پودے کی آبیاری کی مگر حقیقت کچھ اور ہے نواز شریف کو پھر استعمال کیا گیا ہے کچھ عرصہ کے لیے اقتدار سے دوری اور پھر عمران خان کو بی ٹیم کی ساتھ کپتان بن جانے کا موقع تاکہ اسے زلیل کیا جاسکے اور یہی ہوا ہے اور ہوتا آیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کب تک چلے گا سوشل میڈیا کے دور میں کیا ایسے ہی چلتا رہے گا کیا اب بھی امیج بلڈنگ اتنی وقعت رکھتی ہے یہ تو ہر دور میں ہوتا آیا ہے یہ سب امیج بنانے اور بگاڑنے کی باتیں جی ہاں مقتدر حلقے ایک مافیا کی طرح کام کرتے ہیں سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب کے لکھے گئے الفاظ سو فیصد سچ پر مبنی ہیں جو آج بھی اہمیت رکھتے ہیں مگر مافیا کا سرغنہ کوئی اور ہے جسے اب سب جان چکے ہیں نواز شریف ایک مہرہ ہے جو وقت ضرورت استعمال کیا جاتا رہا ہے اس کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا شاید عوام میں اب اتنی سکت ہی نہیں ہے کہ مقتدر حلقوں کے سامنے سر اٹھا سکے مگر عمران خان مزاحمت کے ایک سمبل کے طور پر یاد رکھا جائے گا
٭٭٭