سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! وطن عزیز کی سیاسی سرگرمیاں ایک دن عروج پر ہوتی ہے اور دوسرے دن ا±س کو دھوبی پٹکہ -اور ایسا لگتا ہے کہ تمام کی تمام سرگرمیوں پر کنٹرول درجن بھر ٹی وی اینکروں کے ہاتھ میں ہے جو کبھی ر±لاتے ہیں کبھی ہنساتے ہیں کبھی تڑپاتے ہیں تو کبھی آگ ایسی بھڑکاتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ سارے کا سارا ملک جل رہا ہے اورا±س پر سوشل میڈیا ایسے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ چکا ہے جن کو اپنی ناک پونچھنی نہیں آتی لیکن اپنے سیاسی تجزیئے پیش کرتے ہوئے سقراط و بقراط سے کسی طور کم نہیں نظر آتے بلکہ آج کل تو “مین اسٹریم” میڈیا کے اینکروں نے بھی اپنی اپنی دوکانیں کھول رکھی ہیں اور ان کے تجزیوں پر بعض دفعہ تو دل کرتا ہے کہ اپنا آئی پیڈ ، آئی فون یا ٹیلیویڑن کو توڑ دیا جائے لیکن ا±س کا نقصان اپنی جیب پر محسوس ہوتا ہے تو دل و دماغ ہوش ٹھکانے لگا دیتا ہے کہ سردار نصراللہ یہ تو اپنا نقصان ہے اسی کشمکش میں ایک سوشل میڈیا کے کلپ پر نظر پڑی کہ “ جرنل قمر جاوید باجوہ” “ایک دھلے چور شہباز شریف “ کو جیل میں ملنے جا رہے ہیں عزیزانِ سیاست یقین جانئیے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی کلپ کی سرخی پڑھ کر چونکہ مجھے اپنے صمدی ڈاکٹر جمیل صاحب کے گھر لنچ کی دعوت پر پہنچنا تھا اس لئے جلدی میں پوری خبر نہیں پڑھی اور جلتا کھڑتا ان کے گھر پہنچا سارے راستے یہی سوچتا ہوا کہ کیا تماشا لگا ہوا ہے ملک کی سیاست میں۔قارئین وطن! ڈاکٹر جمیل سرفراز کے دولت خانے پر پہنچا تو وہاں ا±ن کے صمدی ریٹائیرڈ میجر خاور میر صاحب بھی براجمان تھے لنچ کیا تھا تین گرینڈ فادرزGrand Fathers کی ٹو گیدرز تھا ڈاکٹر صاحب ایک دن پہلے وطنِ عزیز میں اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک مہینہ گزار کر آئے تھے ڈاکٹر صاحب کی دونوں صاحبزادیوں ساحرہ میجر صاحب کی بہو اور تارہ میری بہو نے تینوں گرینڈ ز فادرز کے لئے پ±ر تکلف لنچ کا انتظام کیا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب سیاست کی بھر پور ٹھرک رکھتے ہیں میجر خاور صاحب بھی بڑے ویل ریڈ ہیں اور چونکہ جرنل ضیالحق کے اے ڈی سی ہونے کے ناطے سیاست اور سیاسی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں لیکن مزاج کے بڑے دھیمے اور کم گو ہیں خیر جب تین دادے ایک میز پر جمع ہوں اور سیاست پر گفتگو نہ ہو بڑے اچھنبے کی بات ہے میں نے جرنل قمر باجوہ اور شہباز شریف کی ملاقات کی کلپ کا ذکر چھیڑا تو دونوں نے اسٹوری کو بائے نہیں کیا میجر صاحب نے خبر کو فضول کہ کر رد کر دیا بلکہ بتانے لگے کہ جب وہ پانچویں یا چھیویں میں پڑھتے تھی تو سارے دوست مل کر شہید ملت لیاقت علی خان صاحب کے حوالے سے ایک بات کرتےتھے “قائید اعظم نے لیاقت علی خان کو چھوڑا اور لیاقت علی خان صاحب نے رشوت علی خان اور سفارش علی خان “ چھوڑ گئے ہیں اور یہ دونوں خلائی مخلوق آج تک پاکستان کی نس نس میں منڈلا رہے ہیں پہلے تو ہم لوگ بڑے زور سے ہنسے لیکن جب میجر صاحب کی بات نے میرے چھوٹے سے دماغ پر ہتھوڑا مارا تو ہنسی کی جگہ پر سیریس نس نے جگہ لے لی اور رشوت علی خان اور شفا رش علی خان دونوں کے بارے سوچتے رہے کہ لیاقت علی خان صاحب جب شہید ہوئے تو ان کے تن پر پھٹی ہوئی بنیان تھی اور ا±ن کے پاس تو کوئی بنک بیلینس بھی نہیں تھا تو یہ دونوں بلائیں کہاں سے چپٹ گئی یہ سوچتے سوچتے ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دفتر پہنچ گئے تاکہ شام کو محفلِ نَبیذ میں شریک ہونے والے ہم سفروں ان دو خلائی مخلوق کے بارے ذکر کیا جائے اور رائے لی جائے کہ کیسے کہاں اور کب یہ حادثہ سرزد ہوا۔
قارئین وطن! شام بھلی تھی یوں تو فضا میں موسمِ بہار کا رنگ نظر آنا شروع ہو چکا ہے درختوں پر کونپلیں آوازِ بلند اپنا پتا بتا رہی تھی بیرسٹر رانا شہزاد ، نواب زادہ میاں ذاکر نسیم حسین ، صدر ق لیگ مسیحی وقت صعود انصاری اور زاہد خان جدون صاحب تشریف لائے نواب صاحب بڑی زبردست بکرے کی ران روسٹ کر کے لائے جس نے نبیذ کے ہر جام کو جام جم بنا دیا خادم نے سب ساتھیوں کے سامنے جرنل قمر باجوہ صاحب اور شہباز شریف کی ملاقات والے کلپ کا تزکرہ کیا سب دوستوں نے میری بات کو رد کر دیا کہ ایسا ہو نہیں سکتا میرے اصرار پرکہ میں نے کلپ خود دیکھا اس پر بیرسٹر رانا شہزاد نے میری سیاست کی 50 سالہ ریاضت کا گلہ گھونٹ دیا کہ سردار صاحب آپ نے کلپ کے کونٹنٹ contents کو پڑا ہے کہ صرف سرخی پر اپنا فیصلہ صادر فرما دیا ہے میں نے اعتراف کیا کہ نہیں پھر بیرسٹر صاحب نے کونٹنٹ پڑھ کر سنایا جس پر مجھے شرمندگی ہوئی کہ صرف گمراہ کرنے کے لئے ایسی سرخی بنائی گئی ہے میں رانا صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک بار پھر میری آنکھیں کھولی ہیں کہ پڑھ کر فیصلہ کرنا چاہئے ناکہ سرخیوں پر اچھی بات کوئی کرے اس کا شکریہ ادا کر نا چاہئے برا نہیں منانا چاہئے –
قارئین وطن! سوشل میڈیا کے پھیلے ہوئے جال میں جہاں بہت سے وی لاگ پاکستان کی سیاسی فضا کو مکدر بنا رہے ہیں اور ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف اپنا زہر اُگلتے رہتے ہیں اور ا±س میں بیٹھے لوگ لگتا ہے کہ خاکم بندہن جیسے ہی اپنا نام نہاد شو ختم کریں گے پاکستان ٹوٹ جائے گا اور ان کی کلامی سے صاف صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے اندر میں نہیں نواز دا لفافہ بول رہا ہے اسی ہجوم ناز میں صدیق جان ، عمران ریاض ، قاضی سعید ، عارف اقبال بھٹی، ہاں اگر بھٹی صاحب اپنی آواز ذرا نرم رکھ لیں تو سننے میں زیادہ مزا آئے گا امریکہ سے آخری شو کے دونوں اینکرز عرفان ہاشمی اور شاہین صبائی ان حضرات کو میں کبھی نہیں ملا لیکن ان کے سیاسی تبصرے کچھ سچ دھج کا وزن رکھتے ہیں اللہ کرے دوسروں کی پاکستانی بھی جاگ جائے پاکستان کی سلامتی ان کے پھر کام آجائے گی نواز شریف وقتی جیب گرم کرسکتا ہے ہمیشہ نہیں ہمیں رشوت علی خان اور شفا رش علی خان کا قتل کرنا ہوگا پاکستان کو بچانے کے لئے
٭٭٭