جرمن ہٹلر کے دور میں قوم نازی بنائی گئی تھی جس نے غیر جرمنوں کا جینا حرام کر دیا تھاجس کی وجہ سے ایک طرف جرمن گسٹاپو خفیہ پولیس غیر مخالفین کو اغواء کرکے قتل کر رہی تھی۔دوسری طرف نازی قوم جرمنوں کو غیر آر ین قرار دے کر ہلاک کر رہی تھی جس کی وجہ سے دوسری جنگ کے دوران ساٹھ لاکھ یہودی جیسی اور کمیونسٹ جرمن مار دیئے گئے جس پر آج تک انسانیت رو رہی ہے۔آج پاکستان میں بھی جرمن نازیوں اور اطالوی فسطائیوں کے نقش قدم پر چل کر پاکستانی سابقہ کرکٹ کے کھلاڑی نے اپنے پیروکاروں پر مشتمل ایک قوم یوتھ بنا رکھی ہے جس میں اٹھارہ سال سے70سال یا اوپر کے اشخاص شامل ہیں جو اپنے آپ کو یوتھ مطلب نوجوان کہلاتے ہیں۔جس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔جن کا پاکستانی مخالفین کو مار پیٹنا، گالی گلوچ دینا، بلیک میل کرنا تشدد کرنا لاقانونیت پیدا کرنا کردار کشی کرنا وغیرہ شامل ہے جن کو موجودہ حکومتی اداروں کی ہر قسم کی حمایت اور مدد حاصل ہے جن کے خلاف پولیس فوج عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس اور بے اختیار ہوچکے ہیںاگر وہ میڈیا پر بیٹھے مخالفین پر تشدد کرتے ہیں اربوں کھربوں کا چینی، آٹا،ادویات، بی آر ٹی، مالم جبہ، بلین ٹریز، رنگ روڈ اور فارن فنڈنگ میں کرپشن لوٹ مار کرتے ہیںتو انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اگر وہ لوگ پارلیمنٹوں میں مخالف پارلیمنٹرین پر تشدد کرتے ہیںتو بھی ان کا کوئی روکنے والا نہیں ہے۔اگر قوم یوتھ کا سرغنہ عمران خان ٹی وی پر گھنٹوں سننا یکطرفہ بحث ومباحثہ کرتا ہے۔ تواس کا جواب دینے والا نہیں ہے۔اگر عمران خان پاکستان کے قومی سلامتی یعنی کہ پاکستان کے حفاظتی اہم اجلاس میںغیر حاضر ہوتا ہے تو بھی ان سے کوئی مائی کا لال پوچھ گچھ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ ملک کا وزیراعظم جو ہر بات کا عوام کو جواب دہ ہوتا ہے جس کو عوام جوتے مار مار کر اپنے مسائل کا حل پوچھ سکتے ہیں۔مگر وہ پاکستانی عوام کا نہیں قوم یوتھ کا رہنما بن کر مسلط کیا گیا ہے۔جس پر ملکی تمام اداروں کو سوچنا ہوگا کہ کہیں جرمن ہٹلر کی طرح کوئی بڑا سانحہ پیش نہ آجائے کہ پورے ملک کو ایم کیو ایم کی طرز پر یرغمال نہ بنا لیا جائے جس سے چھٹکارہ پانے کے لئے غیر ملکی طاقتوں کی مدد لینا پڑے چونکہ موجودہ مسلط حکمرانوں کے پیچھے وہ طاقتور ادارے ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کو35سال تک برائے راست غلام بنائے رکھا۔باقی وقتوں سازشوں میں گزار دیاجو آج عمران خان کو مارشلاء حکمران بنا کر عوام کی بے بسی اور بے کسی لطف اندوز ہو رہے ہیںیہ جانتے ہوئے ایک ٹائیگر نیازی نے بنگال میں کشت وخون کرکے ملک توڑ ڈالا تھا ۔دوسرا ٹائیگر نیازی آج بچے کچھے پاکستان کو توڑنے میں مصروف ہے ظاہر ہے جب ملکی نظام درہم برہم ہوجائے۔انسانی آزادیاں ختم ہوجائیں۔صوبوں اور اکائیوں میں اختیارات میں بے چینی اور کشیدگی پائی جائی۔دستور پاکستان کو سردخانوں میں ڈال دیا جائے۔قانون کی بجائے حکمرانی کا نفاذ ہو۔ججوں کی کردار کشی کی جائے۔ملکی سرمایہ کاری غیر ملکوں میں منتقل ہوجائے۔خزانہ خالی ہوجائے۔تنخواہیں دینے کے لئے غیر ملکی قرضے لیے جائیں۔قرضوں کے لیے ملکی اثاثے سڑکیں اور ایئرپورٹ گروی رکھ دیئے جائیں۔دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے قرضوں پر قرضے لے کر چینی اور عربی ساہوکاروں پر انحصار کیا جائے۔ایک اور ٹائیگر نیازی ملک میں توڑے گا تو کیا کرے گا۔بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی عوام کو مسلسل مختلف مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ جب بھی وہ جدوجہد کرکے ملکی نظام بدلنے چاہتے ہیں تو ان پر کوئی نہ کوئی ایسا حکمران مسلط کر دیا جاتا ہے جو سالوں سال انہیں ان کے اعمال کی سزا دیتا نظر آتا ہے کبھی وہ جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف کی شکل میں آتا ہے اور کبھی بے وردی عمران نیازی کی شکل میں فسطائیت پسند مسلط ہوتا ہے۔جو عوام کی تمام جدوجہد کو تہس نہس کر دیتا ہے۔عوام اس مقام پر پہنچ جائے یہاں سے انہوں نے سفر آزادی کا آغاز کیا ہوتا ہے۔جس کا سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے جو اب تک جاری ہے جس پر پاکستانی عوام بار بار سوال کرتے ہیں کہ ہم نے1947میں آزادی حاصل کی تھی یا غلامی یہی وجوہات ہیں کہ1971میں خالق پاکستان بنگالی قوم پاکستان سے الگ ہوگئی آج پھر باقی قومیں الگ ہونے پر مجبور ہو رہی ہیں۔جن کے حقوق اور اختیارات سلب ہوچکے ہیںتاہم چور مچائے شور کا دور دورہ ہے جس میں موجودہ حکمران ٹولہ بڑی بڑی چوریاں کر رہا ہے جس کا بھی الزام سابقہ حکمرانوں پر لگا رہا ہے کہ چونکہ سابقہ حکمرانوں نے چوری کی تھی لہذا ہم چور میں جو کوئی نئی بات ہے یہ وہ حکمران ٹولہ ہے۔جن کی بغل میں چھری ہے منہ میں رام رام کا ورد جاری رہتا ہے۔جس کا وزیراعظم کبھی مذہبی درس دیتا ہے۔مدینہ ریاست کا خلیفہ کہلاتا ہے۔مسلمان وقت ہاتھ میں تسبیح گنتا ہے مگر اعمال دیکھیں تو گزشتہ حکمران طبقہ عمران خان کے سامنے بونے نظر آتے ہیںجو کرپشن عمران خان کے دور میں ہوئی ہے اس کے مقابلے میں پورے ستر سالوں کی کرپشن جمع کرلی جائے تو وہ نہ صرف کم پڑ جائے گی بلکہ نظر نہیں آئے گی جس کے باوجود پورا ٹولہ اپنے آپ کو صادق اور آمین کہلانے پر ناز ہے چاہے پاکستانی قوم بدحال اور بے حال ہوچکی ہے۔بہرحال پاکستانی قوم نے بڑے بڑے سانحات دیکھے ہیں جن پر موجودہ صدی میں فسطائیت، نازی ازم نافذ کرنا ناممکن ہے جنہوں نے لاکھوں کی قربانیاں دے کرپاکستان بنایا تھا جس کی حفاظت کے لئے وہ ایسے ویسے عمر اپنوں کو نیست ونابود کردیں گے۔قوم یوتھ کا وہی حشر ہوگا جو جرمن نازیوں اور اطالوی فسطائیوں کا ہوا تھاجن کو دنیا بھر میں چھپنے کی جگہ نہیں ملی تھی۔بہتر یہی ہے کہ قوم یوتھ کو عقل وشعور جس سے وہ محروم ہے اس پر عمل کرنا ہوگا اپنے تشدد آمیز رویوں کو ترک کرنا ہوگاجس کا آج کے دور میں جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔لہٰذا قوم یوتھ کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی کردار اور اعمال ترک کرکے مذہب رویہ اختیار کرنا ہوگاجو اپنے تشدد آمیز رویوں سے مخالفین کو دبا نہیں رہے ہیںبلکہ اپنے خلاف عوام کا طوفان پیدا کررہے ہیںجو بڑھتا بڑھتا ایک دن بہت بڑا عذاب بن جائے گاجس کے بعد کوئی قوم یوتھ رہے گی ناہی اس کے خالقین اور وارثین۔
٭٭٭٭