”پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن”

0
132
پیر مکرم الحق

پاکستان کی تاریخ ویسے تو تاریک سے بھری ہوئی ہے ، قیام پاکستان کے بعد1450ء دہائی ملک لیاقت علی خاں کی شہادت اور ایوب مارشل لاء بجا طور پر سیاہ دن کہلائے جاسکتے ہیںلیکن16دسمبر1971ء کو بجا طور پر پاکستان کے وجود کے لئے سیاہ ترین دن کہا جاسکتا ہے کیونکہ طاقت کے نشے میں مدہوش جن یحیٰی خان نے مشرقی پاکستان کے معاملہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے ظلم وجبر سے حل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا۔ہمارے بنگالی بھائیوں نے ظلم کو سہنے کے بجائے الگ ہونے کو ترجیح دی۔بہرحال اسی70کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سیاہ ترین رات4جولائی اور5جولائی کی درمیانی رات میں ایک اور جنرل نے جمہوری اقتدار پر شب خون مارا اور پاکستان کے مقبول ترین منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت پر بندوق کی طاقت سے قبضہ کرکے آئین کو منسوخ کردیا۔ جمہوریت پسند طبقات پر ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے ۔پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو تھوک کے حساب سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔صحافیوں پر زندان کے نہ صرف دروازے کھول دیئے بلکہ صحافیوں کو کوڑوں کی سزا دیکر دنیا کی بدترین روایت کو جنم دیا۔
پیپلزپارٹی کے جانثاروں کو دہشتگردی کے جعلی الزام لگا کر پھانسیاں دے دی گئیں،ملک کے دو بار منتخب وزیراعظم کی اہلیہ اور دختر کو قیدوبند کی صعوبتیں دیں۔قذاقی اسٹیڈیم میں اپنی لاٹھیاں چلائیں گئیں۔جس میں سابقہ خاتون اول کا سر لہولہان ہوگیا۔غریب کسان مزدور جو بھٹو کے پیار کا دم بھرتے تھے انہیں گھروں سے نکلنے نہیں دیا گیا سیکشن144کو استعمال کرکے پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کے کٹھ پر پابندی عائد کر دی گئی اور پھر1979ء کی4اپریل کی سیاہ رات کو پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم اور ایٹمی طاقت پاکستان کو دلوانے والے نڈر رہنمائ1973ء کے آئین بلکہ متفقہ طور پر لانے والے پارلیمانی لیڈر، اسلامی دنیا کے متفقہ سربراہ کو رات کے اندھیرے میں سولی پر چڑھا دیا کیونکہ قاتل جانتا تھا کہ اگر بھٹو زندہ رہا تو آئین کی شق6کے تحت اسے لٹکایا جائیگا۔ساری دنیا کے قانون دان متفق تھے کہ قتل کی سازش کے الزام میں پھانسی کی سزا نہیں دی جاسکتی۔اسلامی ممالک کے سربراہان نے اپیلیں کی کہ بھٹو کو پھانسی نہیں دی جائے۔اگر آپ انہیں اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہتے تو اس گراں قدر ہیرے کو ہمیں دے دیں۔جنرل اسلم بیگ نے ایک ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بڑا انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء نے کعبہ اللہ میں بیٹھ کر شاہد خالد سعودی فرمانروا سے حلفیہ وعدہ کیا تھاکہ بھٹو کو پھانسی نہیں دی جائیگی لیکن شاید جنرل ضیا کا کوئی اور خدا تھا(نعوذ باللہ) جو بھٹو کو مارنا چاہتا تھا۔جنرل ضیا کا کعبہ میں بیٹھ کر کئے گئے حلفیہ وعدے سے انحرافی اس کا سب سے بڑا گناہ تھا۔شاید E130کا بہاولپور میں گرنا ہی انکے اس گناہ کی سزا بن گئی۔اسی وجہ سے پیسر ضیائ،اعجاز الحق نے ببانگ دھل اسلم بیگ کو اپنے والد کی حادثاتی موت کا ذمہ دار قرار دیا۔
بہرحال تاریخ شاہد ہے کہ ظلم وجبر کا نظام کسی بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے،کوئی بھی معاشرہ ظلم اور بے انصافی سے تباہی کیطرف تو جاسکتا ہے۔
ترقی نہیں کرسکتا ہے پھر اسی جنرل ضیاء نے اپنے ہی مقرر کردہ وزیراعظم کو اوجھڑی کیمپ کی تحقیقات کرنے پر محمد خان جونیجو کو گھر بھجوایا تھالیکن پھر سب سے اعلیٰ ترین حاکم نے انہیں بھی اوپر بھیج دیا تھا۔بار بار کی مارشل لائوں نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا۔جنرل ضیاء ہی نے معاشرے میں بدعنوانی کو عام کیا۔پیش امام کو وضو الائونس معزن کو اذان الائونس،ترقیاتی کاموں کی رقم اپنے من پسند سیاست دانوں کو دیکر سیاسی بدعنوانی کی تر ویکھ کی اپنے من پسند سیاستدانوں کو بدعنوانی کی کھلی چھوٹ دیکر یہ پیغام دیا کہ جو انکے ساتھ ہوگا۔اسکی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔افغانستان میں مجاہدین کا ساتھ دیکر پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کے راستے کھولے جائیں۔پاکستان کو تباہی کے راستے پر لگا دیا۔رہی سہی کثر جنرل مشرف نے پوری کردی۔اب الزام سیاستدانوں پر لگا دیا گیا ،بقول احمد فراز کہ:
وہ زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here