ڈان یا لیڈر!!!

0
76
عامر بیگ

یونیورسٹی آف نیبراسکا اوماہا میں دنیا کے تیرویں بڑے بزنس ایڈمنسٹریشن پروگرام کی ماسٹر کلاس کا انٹرویو تھا مجھ سے سوال پوچھا گیا کہ ایک لیڈر کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں اور کوئی سے تین لیڈرز کے بارے میں بتائیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں لیڈر ہیں میں نے تھوڑے وقفے سے کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو فرنٹ سے لیڈ کر کے مثالی کردار ادا کرے، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لیتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہوں نے صرف دس سال کے اندر بغیر ایک قطرہ خون کا بہائے مکہ فتح کر لیا اور سو سال گزرنے پر پوری دنیا میں ہر جگہ انکا نام لیوا موجود تھا اور اب دنیا میں سب سے زیادہ محمد نام کے لوگ رہتے ہیں ،دوسری مثال میں نے نیلسن منڈیلا کی دی کہ ثابت قدمی میں وہ پہاڑ کی مانند ڈٹا رہا اور آج دنیا اسے ایک ایسے لیڈر کے طور پا یاد رکھے ہوئے ہے کہ جس نے اپنا گھر بار تک قربان کر دیا، 27سال تک کال کوٹھری کی دیواریں بھی اس کا راستہ نہ روک سکیں ،تاریخ میں امر ہو گیا اور تیسری مثال عمران خان کی کہ جس نے اپنے کردار دیانت داری، ثابت قدمی اور دکھی انسانیت کی خدمت کے انمول جذبے سے لوگوں کا دل جیت لیا، کروڑوں انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں فرنٹ سے بھاگ لینے والے میاں محمد نواز شریف تین دفعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے قوم نے انہیں دو تہائی اکثریت سے بھی نوازہ ،وہ چاہتے تو لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے وہ ملک کو معاشی جائنٹ بنا سکتے تھے ،چاہتے تو قوم کو زیور تعلیم سے ہی آراستہ کر دیتے مگر انہوں نے سوائے قرضے لینے اور ٹھیکوں سے مال بنا کر باہر کے ملکوں میں بے نامی جائیدادیں بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، مشکل وقت میں دو دفعہ قوم کو تنہا چھوڑ کر ملک سے راہ فرار اختیار کی، پہلی مرتبہ مشرف کی حکومت میں سزا سے بچنے کے لیے ڈیل کر کے اور اپنے چاہنے والوں کو بے سہارا چھوڑ کر سعودیہ کے سرور پیلس میں ضمیر کے قیدی کی حیثیت سے سات سال گزارے اور دوسری مرتبہ ملکی عدالتوں سے دس سال کے سزا یافتہ مجرم جیل کی سختیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بیماری کے بہانے قوم اور عدالتوں سے جھوٹ بول کر ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن بھاگ کر انہیں فلیٹ میں رہائش اختیار کی جس کو عدالتوں میں تسلیم کرنے سے انکاری تھے ۔ہائی کورٹ سے علاج کے لیے آٹھ ہفتوں کی پیرول پر رہائی کو دوسال ہونے کو آئے ہیں جاں بلب نواز شریف کی لندن جاتے ہی حالت ایسی سنبھلی کہ وہ قائد اعظم ثانی سے قائد تحریک ثانی بن گئے،پاکستان کی بانی پارٹی اور ملک کو کنٹرول کرنے کے چکر میں اداروں کے تقدس کو پامال کرنے سے بھی باز نہیں آتے ،وہ بیماری سے لڑنے کی بجائے لندن کی امیگریشن سے نبرد آزما ہیں ارادہ یہ کہ شاید کچھ عرصہ اور وہاں وقت گزارنے کا موقع مل جائے، کئے کا پھل ملتا ہے یہاں وہاں عدالتوں سے چھٹکارہ ممکن نظر نہیں آتا، آج تک کسی عدالت نے اپنی جیورسڈکشن سے کسی بھی مجرم کو باہر نہیں جانے دیا ،فرنٹ سے لیڈ کرنے کی بجائے جان بچا کر بھاگ لینے والے کو سسیلین مافیا کا ڈان تو کہاں جا سکتا ہے، لیڈر ہرگز نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here