دستِ غیب
محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج آپ کی خدمت میں ایک روحانی استاد واسطی صاحب جمالی کا عمل پیش کرتا ہوں ،تفسیر کے ساتھ مسنون دعائیں اور نقوش بھی وقتا فوقتا آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہتا ہوں ۔یہ صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو علم کے قدردان ہیں اور دعائوں کے ذریعے اپنی حاجت رواء چاہتے ہیں اور علوم کو شرک نہیں گردانتے بالآخر آپ مخصوص طریقے سے اللہ پاک سے مناجات و دعا کرتے ہیں اس کو شرک سمجھنے والے ان مقالوں سے دور رہیں، میرے پاس ان سے بحث کا نہ وقت ہے اور نہ دماغ جو ان کی نظر میں خود کو درست ثابت کروں۔ ٭ عمل میں سور ہ طلاق کی دوسری آیت کا کچھ حصہ اورتیسری مکمل آیت کاعمل ہے۔ ان کا ترجمہ اس طرح ہے کہ اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کیلئے نجات کی راہ نکال دے گا۔ اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتا اور جو اللہ پر بھروسہ کرتاہے اسے وہ کافی ہوجاتاہے ۔ اللہ اپنے امر کو پہنچ کے رہتاہے، اس نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ ٹھہرادیاہے اورجو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کیلئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتاہے اوراسے ایسی جگہ سے روزی دیتاہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہواورجو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوگا ،اللہ تعالیٰ اپنا کام پوراکرکے ہی رہے گا، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقررکررکھاہے۔ حضرت سدی رحمت اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفارگرفتارکرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور انہیں قید کردیاتھا ۔ان کے والد حضرتِ مالک بن اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحبہ وبارک وسلم کے پاس اکثرآتے اوراپنے بیٹے کی حالت اورحاجت ،مصیبت اورتکلیف بیان کرتے رہتے۔ حضور ۖ انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے اورفرماتے عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے چھٹکارے کی سبیل بنادے گا۔ تھوڑے دن گزرے تھے کہ ان کے بیٹے دشمنوں کی قید سے نکل بھاگے ۔ راستہ میں دشمنوں کی بکریوں کا ریوڑ مل گیا ،وہ اپنے ساتھ ہانک لائے اوربکریاں لئے ہوئے اپنے والد کی خدمت میں جاپہنچے ، پس اس وقت حضور نبی اکرم ۖ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ متقی بندوں کو اللہ تعالیٰ نجات دے دیتاہے اوران کا گمان بھی نہ ہو وہاں سے انہیں روزی پہنچاتاہے۔ ٭ سیرت ابنِ اسحاق میں انہیں حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ہے کہ جب وہ کفارکی قید میں تھے تو حضور ۖ نے فرمایا کہ ان سے کہلوادو کہ بکثرت لاحول ولاقو اِلابِاللہِ پڑھتے رہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ ایک دن اچانک بیٹھے تھے کہ ان کا قیدخانہ کھل گیا اوریہ وہاں سے بھاگ نکلے اوران کفارکی ایک اونٹی وہیں سے ساتھ لی اس پر سوار ہولئے۔ راستے میں ان کے اونٹوں کے ریوڑ ملے انہیں بھی اپنے ساتھ ہنکا لائے۔ وہ لوگ پیچھے دوڑے لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ لگے، سیدھے اپنے گھر آئے اوردروازے پر کھڑے ہوکر آواز دی ، والد نے آواز سن کر فرمایا ! اللہ تعالی کی قسم یہ تو عوف ہے۔ ماں نے کہا ہائے وہ کہاں ،وہ تو قید وبند کی مصیبتیں جھیل رہاہوگا۔ اب دونوں ماں باپ اورخادم دروازے کی طرف دوڑے ، کھولا تو ان کے لڑکے حضرت عوف رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اورتمام صحن انٹوں سے بھراپڑاہے۔ پوچھا کہ یہ اونٹ کیسے ہیں؟ انہوں نے واقعہ بیان فرمایا۔ والد (حضرت مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ )نے فرمایا کہ اچھاٹھہرو !میں حضور رسولِ کریم ۖ سے ان اونٹوں کی بابت مسئلہ دریافت کرآں۔ حضور ۖنے فرمایا کہ وہ سب مال تمھاراہے جو چاہو کرواوریہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ سے ڈرنے والوں کی مشکل اللہ تعالی آسان فرماتاہے اوربے گمان روزی پہنچاتاہے۔
٭ تفسیر ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما میں ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ کا لڑکا کفارکے ہاتھوں قید ہوگیا تھا ،وہ حضور ۖ کے پاس فریادکرتے آئے کہ یارسول اللہ ۖ ! مجھے اپنے لڑکے کے فراق میں جینا شاق ہے خداجانے کافروں کے ہاتھوں میں اس کا کیا حال ہوگا، اس پر فقروفاقہ کی تکلیف ہوگی، حضور ۖ نے صبر کی نصیحت فرمائی۔ تھوڑے دنوں بعد وہ لڑکا ان کافروں کو کسی طرح دھوکہ دے کر معہ ان کے بہت سے اونٹوں مالِ غنیمت کے بخیر وخوبی صحیح سالم ماں باپ سے آملا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔
٭ میں عرض کروں گا کہ عظیم ترین تفاسیر کی روشنی میں ان آیات کی شانِ نزول سے چند باتوںکی وضاحت ہوتی ہے ۔ ایک یہ کہ جوشخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہے ، اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات میں اسے مشکلات سے نجات عطافرمادیتاہے۔ حقیقت ہے کہ راس الحِکمِ مخافاللہ دانائی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ پر جو شخص توکل ،بھروسہ کرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتا ہے جہاں سے اس بندے کا گمان بھی نہیںہوتا۔ چوتھی بات یہ کہ صبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر غم اورمصیبت سے نجات عطافرمادیتاہے، ان اللہ مع الصابرین بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے۔ یہ معیتِ الہیہ بندے کیلئے کافی ہے ہرمعاملہ میں پانچویں بات یہ بھی واضح ہوئی کہ فرمانِ مصطفی کریم ۖ کے مطابق لاحول ولاقو اِلابِاللہِ بکثرت پڑھنے والا ہر رنج وغم اورقید وبندوغیرہ کی تکالیف سے نجات پاتاہے۔ نیز فرمایا کلاحول شریف سو امراض کا علاج ہے ، نیز فرمایا کہ جس کیلئے غم وفکر زیادہ ہوجائیں تو وہ ان کلمات کودہرائیں،( ہرغم سے نجات ملے گی)۔غرض بے شمار خواص وفوائدِ متبرکہ ان آیات سے حاصل ہوتے ہیں۔ میں ذیل میں دستِ غیب کا ایک نورانی عمل تحریر کرتا ہوں دستِ غیب کے صرف یہی معنی نہیں کہ صبح تکیہ کے نیچے سے معقول رقم حاصل ہواکرے،گو یہ بھی ناممکن نہیں لیکن اصل دستِ غیب یہ ہے کہ بندہ تمام حاجتوںمیں اللہ تبارک وتعالی کے سواکسی غیر کا محتاج نہ ہو۔ ترکیبِ عمل کے مطابق اگر آپ عمل پیراہونگے تو انشا اللہ تعالی محرومِ اثرنہ رہیں گے۔ یاد رکھیں کہ بہانہ ڈھونڈتی پھرتی ہے رحمتِ مولا
ترکیبِ عمل:
ایک سفیدکاغذپرسیاہی سے خوشخط اس نقشِ مبارک کو چھ انچ چوڑائی میں بنالیں یا کسی سے بنوالیں اور ایک گتہ پر اسے چپکاکر یا فریم کراکر قبلہ رومصلی کے سامنے تقریبا فٹ کے فاصلہ پر اسے آویزاں کرلیں۔ یا ایک تکیہ سامنے رکھ کر اس پر وہ فریم یا نقش والا گتہ رکھ کر درمیان کے دائرہ میں جس میں اسمِ اعظم ھوالرزاق لکھاہے اس پر نظرجماکر مرتبہ یہی آیاتِ مبارکہ مع اول آخرگیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے روزآنہ پڑھیں۔ مسلسل پڑھیں اس سے جو فوائد حاصل ہونگے انہیں لکھ دینے سے میں محدود نہیں کرناچاہتا ۔ اگر باپرہیز جلالی وجمالی کے ساتھ کیا جائے تو اُمیدہے کہ سال بھر میں ہی دستِ غیب (روزینہ ملنا)شروع ہوجائے گا۔ کشائشِ رزق، ترقی ،برکات، وغیرہ کیلئے بہترین عمل ہے جو کرے گا ،فیض پائے گا۔
اس بیان کردہ طریقہ کار کا نقش معظم ای میل کے ساتھ فوٹو فائل منسلک ہیں برائے مہربانی اس کو اخبار کے مقالے کے نیچے پرنٹ کریں تاکہ حاجت مند اس نقش کو بنا سکیں اس سلسلے میں بوقت ضرورت میں ستاروں کی چال کی مناسبت سے بھی مجربات پیش کرونگا مجھے زحمت نہ دیں آپ خود بنائیں اور آیت کا ورد مخصوص طریقے سے کریں اور بامراد ہوں اللہ سے دعا ہے آپ کی جائز حاجتیں پوری فرمائے ،آمین !اجازت دیں، ملتے ہیں اگلے ہفتے، ان شا اللہ
٭٭٭