پاکستان کیلئے اگست کا مہینہ اس حوالے سے انتہائی اہمیت و عظمت کے مقام کا حامل ہے کہ 75 سال قبل اسی ماہ کی 14 تاریخ اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب دنیا کی پہلی اسلامی مملکت کے طور پر اس کا قیام عمل میں آیا اور آج تمام تر داخلی و خارجی کٹھنائیوں کے باوجود وطن عزیز نہ صرف اسلامی دنیا کا پہلا نیوکلیائی ملک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اپنی جغرافیائی اہمیت اور دنیا کی بہترین و باصلاحیت عسکری قوت کے ناطے نہ صرف خطے میں بلکہ اکناف عالم میں بھی امتیازی مقام رکھتا ہے۔ حسن اتفاق کہ اس سال 14 اگست کو ہی افغانستان کو دو عشروں سے امریکہ کے قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد میں مصروف طالبان نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور امریکی و نیٹو قبضے سے نجات حاصل کر لی ہے۔ اس نئی صورتحال میں بالخصوص پر امن افغانستان کیلئے پاکستان کی اہمیت اور زیادہ ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ امریکہ، یورپی و دیگر ممالک بھی اس ایشو پر پاکستان سے رابطوں میں ہیں کہ افغان عمل میں مثبت پیش رفت ہو سکے۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں کسی بھی صورتحال کا اثر سب سے زیادہ پاکستان پر پڑتا ہے۔ گذشتہ چار دہائیوں کی تاریخ ا سکی شاہد ہے۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قوموں کی کامیابی اور مضبوطی کا راز خصوصاً غیر معمولی داخلی اور خارجی معاملات و صورتحال میں عوام کے اتحاد اور سیاسی و عسکری قیادت کے مدون و یکجا عمل اور باہم مؤقف پر ہوتا ہے۔ الحمد ﷲ اس وقت ہماری حکومت، ریاستی ادارے اور عوام مشترکہ مؤقف پر عمل پیرا ہیں لیکن شکست و مفادات کی ماری ہماری سیاسی اشرافیہ موجودہ صورتحال کی نزاکت کو جانتے ہوئے بھی گذشتہ تین برسوں سے جاری ریاستی و حکومتی مخالفت اور کسی بھی طرح حصول اقتدار اور اپنی بدمعاشیوں کی متوقع سزاؤں سے بچنے کی تگ و دو میں ہی لگی ہوئی ہے۔ ان غرض کے اندھوں نے موجودہ خطہ کی صورتحال اور کوویڈ کی تشویشناک صورتحال میں پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ فضل الرحمن اور شہباز شریف نے کراچی کے جلسے میں اسلام آباد مارچ اور حکومت کی سیاسی تدفین کے دعوے کئے تو نواز شریف نے قوم کے محافظین پر حسب معمول دشمن کے ایجنڈے کے پر تو میں زہر اگلا۔ مدرسوں کے بچوں پر مبنی اس جلسی میں ان سیاسی منافقین نے دشمنانہ دعوے تو کر دئیے لیکن عوام کے ذہنوں کو متاثر نہ کر سکے تو دوسرے دن ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، ن لیگ کے صدر شہباز شریف نئی تجویز لے آئے کہ قومی حکومت تشکیل دی جائے اور اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دی جائے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو چلتا کرے اور اس نئی حکومت میں تحریک انصاف کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی حکومت کا حصہ دیا جائے۔ اقتدار کے بھوکے ن لیگ و جے یو آئی کے سربراہان ”نیا جال لائے پرانے شکاری” کے مصداق جب ریاست و حکومت سے محاذ آرائی میں کامیاب نہ ہوئے تو مقتدرین کی خوشامد پر اتر آئے ہیں کہ ”سانوں وی کج حصہ دے دیو”۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی و اسٹریٹجک حالات میں جب ایک جانب خطے میں اہم واقعات و تبدیلیاں درپیش ہیں موجودہ حکومت تین سال مکمل کرنے کے ساتھ ملکی، معاشی صورتحال میں بہتری خصوصاًمیکرو اکنامکس میں ملک و عوام کے مفاد میں اقدامات کے حوالے سے کامیابی کے ساتھ خارجی امور میں بالخصوص افغان ایشو کے تعلق سے کامیابیوں کی حامل ہے تو ایسے میں قومی حکومت کا کیا جواز بنتا ہے۔؟
سیاسی تاریخ اس امر کی گاہ ہے کہ قومی حکومتیں کسی بھی ملک یا قوم کو درپیش انتہائی نا مساعد حالات یا غیر معمولی وقوع کی وجہ سے قیام پذیر ہوتی ہیں، پاکستان میں تو ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔
وطن عزیز میں امن و امان کے حوالے سے کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں، برآمدات میںاضافہ، انڈسٹریز اور اسٹاک ایکسچینج بہترین اشارئیے دکھا رہے ہیں، ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے، گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بہترین اقدامات کے ساتھ عوامی بہبود کیلئے احساس، روشن جوان پروگرامز جیسے متعدد پراجیکٹ کے ساتھ زرمبادلہ ، شرح نمو اور دیگر مالی کامیابیوں کی دنیا بھر کے عالمی اداروں کی ستائش کی موجودگی میں موجودہ حکومت کو ختم کرنے اور قومی حکومت کا قیام محض دیوانے کا خواب یا بھوکے کا روٹی میں نوالے کا حصہ مانگنا ہی ہو سکتا ہے۔ حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا۔
نواز لیگ کی تاریخ ایک کھلا راز ہے کہ شروع سے ہی مقتدرین کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار پر براجمان اور پھر انہی سے بگاڑ پیدا کرکے ذلیل و رسوا ہوئی ہے۔ اب پھر شرکت اقتدار کیلئے قومی حکومت کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ افغان انخلاء کے حوالے سے اس وقت پاکستان جو خدمات انجام دے رہا ہے۔ تمام غیر ملکی افراد (فوجی، شہری، میڈیا و دیگر اداروں) کے انخلاء میں حکومت کے اقدامات، پاکستان میں راہداری و قیام کے حوالے سے کارکردگی کو ہر جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ عسکری اشرافیہ ملک کے دفاع اور امن و امان کیلئے مستعد و فعال ہے۔ ایسے میں شہباز شریف کا بطور قائد حزب اختلاف فرض تو یہ بنتا ہے کہ وہ حالات کے تناظر میں ریاست و حکومت کے ساتھ کھڑے ہو کر دنیا کو ایک متحد و یکجا اور خوددار قوم کا تاثر دیتے لیکن کیا کیجئے ان غرض کے بندوں کو اپنے مفاد و اغراض کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، مزاحمت و مفاہمت کا ڈرامہ بے سود ہوتا ہوا تو اب اقتدار میں شرکت کی بھیک مانگنے پر آگئے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ ان کیلئے فائدہ مند ہو یا نہ ہو ان کے ووٹرز، سپورٹرز کیلئے ان سے دور اورنالاں ہونے کا باعث ضرور بنے گا اور لگتا ہے کہ اگلے انتخابات میں بھی ناکامی ان کانصیب ہو گا۔