کرپشن کا ناسور!!!

0
154
جاوید رانا

گزشتہ کالم میں اپنے پاکستان وزٹ کے دوران مشاہدات و تجربات کے تناظر میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ وطن عزیز میں تمام طبقات ہی ذاتیات اور مفادات کی دلدل میں بُری طرح لتھڑے ہوئے ہیں اور اپنی ذات کے حوالے سے کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ اور میڈیا کے کھیل تماشے تو اپنی جگہ، کرپشن کے الزامات، طوفان میڈیا شوز میں اُٹھائے جاتے ہیں اندر خانہ سب ہی اس حمام میں ننگے نظر آتے ہیں اور بظاہر ایک دوسرے کے مخالف سیاسی گُر ، کرپشن و منافقت کی ایک ہی تھالی کے حصہ دار بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کرپشن کی اس دلدل میں ہر شعبہ ہر طبقہ ہی بُری طرح دھنسا ہوا ہے۔ اس حوالے سے اپنی شکاگو آمد کے حوالے سے لاہور ایئرپورٹ پر جن واقعات سے میں گزرا وہ کرپشن کی انتہاء کی چھوٹی سہی مگر دل گرفتہ مثال ہے۔ ایئرپورٹ پر بورڈنگ اور امیگریشن کے مراحل سے لے کر لائونج اور ٹوائیلٹ تک پیسے کا بھنور مسافروں کو گرداب میں لپیٹنے کیلئے مستعد و متحرک نظر آیا۔ اس کرپشن کے گرداب میں لوڈرز سے لے کر امیگریشن کے ا عمال، ایئرلائنز کے اہلکار حتیٰ کہ ٹوائیلٹ کے صفائی کرنیوالے تک سب ہی بلا واسطہ یا بالواسطہ شریک نظر آئے۔ کرپشن کی ان وارداتوں میں بیرون ملک جانے والے مسافروں کو پیسے کے بل پر بورڈنگ کے مراحل، وزن کے مسئلے اور امیگریشن کی طویل لائنوں سے معلقہ لوڈر کے توسط سے نجات تو مل جاتی ہے لیکن دوسرا رُخ یہ ہے کہ اس طرح کوئی بھی بغیر تحقیق، کلیئرنس اور تفتیش کے آسانی سے عازم سفر ہو سکتا ہے خواہ وہ مشکوک و مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مثال اس سچائی کی نشاندہی بھی ہے کہ معمولی لوڈرز کے ڈانڈے ایئرپورٹس پر متعین حساس اداروں کے اہلکاروں سے ملے ہونے اور کرپشن کے گھنائونے کھیل میں ملوث ہونے کے باعث سیکیورٹی رسک اور ذمہ داروں کی فرائض سے عدم پیروی کا یہ بدترین عمل ہے۔ اپنے قیام لاہور اور بیشتر سیاسی و سیاسی احباب کی منعقدہ ذاتی، سیاسی و سماجی تقاریب میں شریک ہو کر اس خاکسار نے یہ بھی دیکھا کہ سیاست کی بساط پر ایک دوسرے کے انتہائی مخالف مال بنانے، ذاتی مفادات کے حصول اور اپنی سیادت و سیاست کو برقرار رکھنے کیلئے متحرک نہ صرف باہم شیر و شکر ہیں بلکہ ہم پیالہ و ہم نوالہ بھی ہیں۔
بات محض حکومتی و اپوزیشن سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کھیل میں بیورو کریسی اور اہم اداروں بلکہ ہمارے مشاہدے کے مطابق بعض حساس و ضابطہ کاروں کے انتہائی اہم حیثیت کے افراد بھی شریک ہیں جو ایک جانب تو حکومتی اقدامات و احکامات اور پالیسیوں پر اپنے فرائض پر عملدرآمد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب اپنے تعلقات، مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے درپردہ اپوزیشن سے اپنی وفاداریوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مفادات، منافقت اور کرپشن کی اس صورتحال میں معاشرتی تطہیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہی نظر آتی ہے۔ جب نظام اور گورننس کے ذمہ دار ہی اپنے فرائض سے اغماض کر رہے ہوں تو عمران خان تو کیا آسمان سے کوئی فرشتہ بھی آکر بہتری اور اصلاحات نہیں کر سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی نظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے حکومتی، ریاستی اور انتظامی ذمہ دار اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو پورے طور سے انجام نہ دیں۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ معاشرے کی حیثیت ایک جسم کی ہوتی ہے اور اگر اس کا بالائی حصہ گل سڑ جائے تو سارا جسم ہی بدبودار و ناکارہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے سطور بالا میں ذکر کردہ مشاہدات و تجربات اس مؤقف کی گواہی ہیں کہ رفتہ رفتہ پاکستان کا سیاسی و معاشرتی ڈھانچہ کرپشن اور خود غرضی و مفادات کی سڑانڈ سے انتہائی غلیظ ہو چکا ہے اور اس کی تطہیر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے معیشت، معاشرت، سیاست سب میں ابتری ہی نظر آتی ہے، خود وزیراعظم نے بھی اس کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ کرپشن اور کرپٹ کیخلاف کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر جگہ، ہر شعبے میں کرپشن کے آلۂ کار متمکن ہیں اور اپنے مفادات کی نگہداشت میں مصروف ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایسے عناصر محض بیورو کریسی، احتسابی و عدالتی شعبوں میں ہی نہیں بلکہ حکومتی راہداریوں میں بھی موجود ہیں جو وزیراعظم کے عزائم و اہداف پر صدق دل سے عمل کرنے سے گریزاں ہیں نیز اندر خانہ صرف اپنے مفاد دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم کا یہ اعلان کہ اگر مجھے نکالا تو میں اور بھی خطرناک ہو جائوں گا صرف اپوزیشن سے ہی نہیں بلکہ ان حکومتی عناصر و حلیفوں سے بھی مخاطب تھا جو اقتدار کی خواہش، کرپشن کے تسلسل اور پارٹی بدلنے کے عادی ہونے کیساتھ بقول مبصرین و تجزیہ کاران پارٹی و حکومتی قیادت کے درخواستگار ہیں اور مقتدرین تک اپنی آواز پہنچانا چاہتے ہیں۔ اُدھر صدارتی نظام کا شوشہ بھی چھوڑا جا رہا ہے کہ یہ نظام ترقی کا سبب بنے گا لیکن ہمارا یقین ہے کہ جب تک ملک سے کرپشن کا گند ختم نہیں ہوگا کوئی نظام بھی آجائے وطن عزیز حقیقی ترقی سے محروم ہی رہے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here