انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ کے تحت 15 اگست 1947 کو کشمیر پر سے برطانوی بالادستی ختم ہو گئی تھی اور چونکہ کشمیر نے 15 اگست سے پہلے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا تھا تو قانونی طور پر وہ آزاد ہو گیا، مہاراجہ ہری سنگھ آزاد ہی رہنا چاہتا تھا ، یہ اس بات سے واضح ہو گیا کہ اس نے دونوں، انڈیا اور پاکستان کے ساتھ 1947 کے انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ سٹینڈ سٹل معاہدے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، مہاراجہ نے 12اگست 1947 کو بالکل ایک سے ٹیلی گرام دونوں ممالک کو بھیجے پاکستان 15 اگست 1947 کو اس معاہدے کے لیے راضی ہو گیا جہاں تک انڈیا کا سوال ہے تو انڈیا اس بارے میں مذاکرات کر رہا تھا مگر اس نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے، پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ ہو جانا اور انڈیا کے ساتھ اس پر مذاکرات ہونا، اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی نئے ملک کے پاس کشمیر پر کوئی اختیار یا بالادستی نہیں تھی، تمام قانون سازی اور برطانوی حکومت کے بیانات سے واضح ہے کہ جیسے ہی ہندوستان میں برطانوی سامراج ختم ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد ہو گیا اور اس بات کو انڈیا اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے 26 اکتوبر 1947 تک، جب کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد تھا ،کشمیر کا الحاق مہا راجہ ہری سنگھ نے وہاں کی مسلم اکثریت کی رائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے انڈیا کے ساتھ کر دیا ،جوناگڑھ کے خانجی نے جوناگڑھ کی ہندو اکثریت رائے کو جانے بغیر اسکا الحاق پاکستان سے کر دیا ،قائد اعظم محمد علی جناح کے تقسیم ہند کے پیچھے دو قومی نظریہ کار فرما تھا جبکہ تاج برطانیہ کے تقسیم ہند فارمولے کے مطابق کشمیر اور جونا گڑھ کا الحاق انڈیا اور پاکستان کیساتھ مناسب نہیں تھا، نتیجہ دونوں ریاستیں طاقتور انڈیا کے قبضے میں ہیں کشمیر پر انیس سو اڑتالیس میں انڈیا پاکستان کی پہلی جنگ ہوئی ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مداخلت اور نہرو کی طرف سے دائر کردہ قرارداد کے تحت لائن آف کنٹرول جہاں دونوں ممالک کی افواج موجود تھیں وہیں پر جنگ بندی کے وقت انڈیا اور پاکستان کا قبضہ طے پایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل استصواب رائے کروائے گی اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہوجائے گا ،آج تہتر سال ہونے کو آئے ہیں کشمیر پر استصواب رائے نہیں ہو سکا، اُلٹا انڈیا نے کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے جو انڈین آئینی دو تہائی اکثریتی گھوٹالے سے جائز بنانے کی بھونڈی حرکت کر کے بھی دیکھ لی ،پاکستان اور نہ ہی کشمیری عوام نے اسے تسلیم کیا ،دنیا کو اس قضیے کی فکر شاید اس وقت نہیں کیونکہ بڑی طاقتیں لڑوا کر اسلحہ فروخت کر کے مال بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اسی بہتی گنگا میں کچھ اپنے بھی ہاتھ دھونے کو ہیں ،جی ہاں جونا گڑھ کا قضیہ لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کو ہیں خبر ہے کہ اقوام متحدہ کو خبردار کر دیا گیا ہے چونکہ جونا گڑھ کا الحاق اس وقت کے نواب آف جوناگڑھ نے پاکستان سے کر دیا تھا لہٰذا جوناگڑھ پاکستان کے حوالے کیا جائے ،اس بارے میں آوازیں اُٹھائی گئی ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر اسی مطالبے کو انڈیا نے کشمیر کے ساتھ نتھی کر دیا تو جو بچا کھچا کشمیر پاکستان کے پاس ہے وہ بھی ہاتھ سے جائے گا ،شاید اس کے پیچھے بھی وہی لالچ یا عمل کار فرما ہے جو سندھی جاگیرداروں کو کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیتا ،شنید ہے کہ انڈیا سالانہ بارہ ارب خرچ کرتا ہے ،صرف اسی ایک مقصد کے لیے کتنا مال و متاع ملا ہوگا ،اس اینگل سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں کہ تمام دریا کشمیر سے نکلتے ہیں جس سے انڈیا پاکستان کے کھلیان سونا اُگلتے ہیں کہاں کشمیر جنت نظیر اور کہاں جونا گڑھ، اس گڑھے مردے کو اُکھاڑنے کا مقصد کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے کیا ،حالانکہ گورداسپور اور حیدر آباد دکن کے نظام نے آخری وقت تک کسی کے ساتھ بھی الحاق نہیں کیا تھا، انڈیا نے دونوں ریاستوں پر فوج کشی کی اور قبضہ کر لیا تو کیا ان دونوں ریاستوں کے لیے بھی تحریک چلائیں گے ،نظام کے پاس تو مال بھی بہت تھا ،دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اسکا شمار تھا جسکی اپنی فوج بھی تھی مگر صرف جوناگڑھ کو نہیں چنا گیا ، اس کے پیچھے مقصد صاف اور واضع ہے۔
٭٭٭