یقیناً عدم اعتماد تحریک کی آئینی حق حاصل ہے کہ جب بھی پارلیمنٹرین آف پاکستان وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپنے ووٹوں سے ان کو عہدوں سے ہٹا سکتے ہیں یا پھر صدر پاکستان کو مواخذے کے ذریعے صدر کے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔جس طرح پاکستان کی پارلیمنٹ نے وزیراعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے اپنے اکثریتی ووٹوں سے برطرف کیا ہے یا پھر اسپیکر مستعفی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد تحریک لائی جارہی تھی جو اس سے پہلے بھاگ گئے یا پھر آج پنجاب میں پہلے مستعفی وزیراعلیٰ بزدار کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش کی گئی تھی یا پھر موجودہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے والے اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کے خلاف عدم اعتماد تحریک آنے والی ہے۔چونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کی بحالی کی جنگ لڑی جارہی ہے جس کو ماضی میں پانچ مرتبہ منسوخ اور معطل کیا گیا یا پھر عمران خان کے دور فسطائیت میں آئین کو برُی طرح پامال کیا گیا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے کہ ان کے نامزد صدر اور گورنر آئین کو پس پشت ڈال کر آئین کی بجائے عمران خان کا ساتھ دینے پر وزیراعظم کابینہ یا وزیراعلیٰ سے حلف نہیں اٹھا رہے ہیں جو آئین سے مکمل بغاوت ملے جس کے نہایت بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔
ایسے موقع پر سینیٹ کے چیئرمین اسلم سنجرانی قابل ستائش ہیں جنہوں نے تمام آئین کے خلاف سازشوں اور بغاوتوں کے خلاف ملک کے وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لیا ہے جس سے ان کے تمام گناہ قابل معافی سمجھے جانے چاہئے جو انہوں نے دور عمرانی میں کیے ہونگے۔چونکہ صدر کا مواخذ کرنا مشکل مرحلہ ہے جس کے لئے پارلیمنٹرین کی پچاس فیصد اقداد پہلے تحریک پیش کرے جس کے بعد دو تہائی ممبران کی تعداد مخالفت میں ووٹ دے۔جو فی الحال ناممکن ہے جس کی بنا پر صدر علوی آئین کے ساتھ کھیل رہا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ وہ آخر کار رسوا اور ذلیل ہو کرایوان صدر سے باہر نکلے گا۔جب جیل کی گاڑی ان کی منتظر ہوگی جن پر فوجداری مقدمات درج ہیں جنہوں نے یوتھیا جھنوں سے سرکاری دفتروں تھانوں اور ایوانوں پر حملے کیے تھے۔تاہم عدم اعتماد تحریکوں کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔جو آئین پاکستان کا حصہ ہے جس سے آئین کی بالاتری کا درس ملتا ہے کہ جب بھی کوئی آئینی عہدیدار عوام دشمن یا ملک دشمن ہوجائے تو پارلیمنٹرین ان کو فوری پر ہٹا کر دوسرا عہدیدار منتخب کریں جس سے عوام کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے یہی وجوہات ہیں کہ آج عدالتیں وکلا برداری سول سوسائٹی آئین کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے کہ جب عدالت عظمٰی نے دیکھا کہ ان کے عدالتی حکم پر عمل کرنے کی بجائے عدم اعتماد تحریک کی ووٹنگ سے انکار کیا جارہا تھا تو عدلیہ کو19اپریل بروز ہفتہ رات بارہ بجے عدالت کھولنا پڑی تاکہ توہین عدالت عدالت سے بچایا جائے۔جو ہوا کہ سابقہ اسپیکر اسد قیصر کو پارلیمنٹر کا مزید اجلاس ملتوی کرنے کی بجائے مارچ پینل کے دوسرے ممبر اسمبلی ایاز صادق کو دے کر بھاگنا پڑا ورنہ وہ توہین عدالت کے مجرم بن کر سیدھے جیل جاتے جن کے لئے پارلیمنٹ کے باہر جیل گاڑی منتظر تھی۔بہرکیف عمران خان کی برطرفی اور ان کے نامزد گورنروں کو ہٹانے سے آئین کا نفاذ ہو رہا ہے۔جو ملک کا سپریم قانونی ہے جس کو زبان عام میں قانون کی ماں کہا جاتا ہے جو آج کی مہذب اور جمہوری دنیا میں انسانوں کی بنائی گئی ایک مقدس کتاب کہلاتا ہے جس پر کوئی ریاست قائم ہوتی ہے۔جس کو مختلف ملکوں میں یونین اور فیڈریشن کہا جاتا ہے جس میں ریاست میں شامل صوبے اکائیاں یا ریاستیں آپس میں مقاصد کرتے ہیں۔ کہ وہ کس طرح مل کر ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے جس میں بعض اصولوں کو بنیادی حیثیت دی جاتی ہے جس میں شری انسانی اور بنیادی حقوق سرفہرست ہوتے ہیں ریاست میں شامل صوبوں اور ریاستوں کو مکمل خودمختاری دی جاتی ہے تاکہ وہ کسی قسم کی محرومیوں کی شکار نہ ہوں۔آئین پاکستان فیڈریشن کی نشانی ہے جس پر ریاست پاکستان کھڑی ہے لہذا جو بھی آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے وہ دراصل پاکستان کا دشمن کہلاتا ہے جو فیڈریشن کو توڑنے کے مترادف ہے یہی وجوہات ہیں کہ اگر1971میں آئین پاکستان موجود ہوتا تو پاکستان کبھی ٹوٹ نہ پاتا۔آج پھر عمرانی ٹولہ آئین پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے جن کے نامزد صدر اور گورنر اپنے آئینی عہدوں پر فائز ہو کر آئین سے انحراف کر رہے ہیں۔جس سے ملک میں آئینی بحران پیدا کیا جارہا ہے جو کسی گھنائونے منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ ملک کو غیر قانونی اور غیر آئینی طاقت قبضہ کرلے۔چونکہ عمران خان کی پیدائش پرورش اور تربیت جنرلوں کے ہاتھوں میں ہوئی ہے جس میں جنرل گل حمید، جنرل مشرف، جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام اور جنرل فیض حمید کا بہت بڑا کردار ہے جنہوں کے سول حکومتوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جھال بچھائے رکھا ہے جن کے نقش قدم پر چل کر عمران خان بھی آئین کو پامال کر رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے جب عدم اعتماد تحریک دائر کر دی جائے تو وزیراعظم پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کرا سکتا ہے۔مگر انہوں نے آئین کی پرواہ کئے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل کیا جس پر عدلیہ کو ازخود نوٹس لے کر پانچ دنوں کی سماعت کرکے پارلیمنٹ بحال کرنا پڑی جس کو سبوتاژ کرنے کیلئے عمران خان نے اپریل9بروز ہفتہ کو اجلاس کی موخری اور تحلیلی حربوں کا استعمال کرنا چاہا جس کو عدلیہ نے رات بارہ بجے عدالت کھول کر اس سازش کو روک دیا جس کے بعدپاکستان کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ ہوئی جس میں اکثریتی پارلیمنٹرین نے اس کو برطرف کر دیا جس کے بعد عمران خان اس کتے کی طرح بھاگتا بھونکتا پھر رہا ہے جس طرح کسی کتے کی دم پر پٹاخے باندھ دیئے جائیں تو وہ یہاں بیٹھے گا پٹاخے پھٹتے ہیں جس پر کتا بیٹھ نہیں پاتا ہے۔
٭٭٭٭