ثمینہ گل : گلِ بستانِ شاعری!!!

0
568
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ثمینہ گل کا شعری مجموعہ دیدم موصول ہوا۔ دیدم فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی میں نے دیکھا ہیں۔ عربی زبان میں شاعر صاحبِ شعور کو اور لاطینی زبان میں صاحبِ بصیرت کو شاعر کہتے ہیں۔ یہ بصیرت ہر کس و ناکس کا مقدر نہیں!
یہ رتب بلند ملا جس کو مِل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
ثمینہ گل کو یہ رتب بلند دنیائے شاعری نے عطا کیا۔ دیدم کا مقام اِتنا بلند ہے کہ حافظ شیرازی کو کہنا پڑا
دوش دیدم کہ ملائک درِ میخانہ زدند
گِل آدم بسرشتند و بہ پیمانہ زدند
رہا ان کے تخلص کا معاملہ تو وہ خود سراپا گل ہیں، فارسی اور اردو شاعری میں گل و بلبل ایک استعارہ ہے۔ بلبلِ نالیدہ اور گلِ خستہ ، داستانِ دل ہی نہیں داستانِ خزاں دیدہ چمن بھی ہے، جب آمریت اور فسطائیت کے منحوس سائے چاروں طرف منڈلا رہے ہوں تو پھر بقولِ غالب صورتِ حالات یوں ہوتی ہے
بوئے گل، نال دل ، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا
جب بوئے گل بھی پریشاں ہو تو نال دل بصورتِ دیدم نکلتا ہے
اِس جبرو ستم کی نشان دہی ثمینہ گل ایک شعر میں یوں کرتی ہیں
اندھیرا اوڑھے اجل زمیں پر برس رہی ہے
اداس آنکھوں میں زندگی اب ترس رہی ہے
زندگی کا ترسنا کسی قیامت سے کم نہیں۔ یہ شعر کئی شعری مجموعوں پر بھاری ہے۔ استاد فوق لدھیانوی کا شعر ہے!
زندگی لطف اٹھانے کے لئے ہوتی ہے
زندگی ہو تو کوئی لطف اٹھایا جائے
ثمینہ گل کی شاعری میں انقلابی اشعار کی کمی نہیں۔ ان کی شاعری انسانی مسائل کی آئینہ دار ہے۔ ان کا ایک اور انقلابی شعر سنئیے اور سر دھنیے- کہتی ہیں
کس کو یہاں تھا شوق کہ ہم خاک چھانتے
لائی ہے آسمان سے تقدیر کھینچ کر
رومانوی شاعری جوانی کی کیفیت اور وجدان کی حدت اور جذبات کی شدت کا نام ہے۔ کہتے ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو اِس فطری جذبہ کا اظہار ثمینہ گل کی شاعری میں بکثرت ملتا ہے۔ کہتی ہیں
پرانی یاد کو یکسر بھلا دیا تم نے
کسی کے کہنے پہ یہ کیا کِیا تم نے
کسی کے کہنے پہ مجھے چراغ حسن حسرت کی خوبصورت غزل کا ایک شعر یاد آ گیا۔ کہتے ہیں
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
آپ کی شاعری میں روحانی اور مذہبی اشعار اِن کی اخلاقیات اور مذہبیات سے دلچسپی، دلبستگی اور وابستگی کی دلیل ہے۔ کہتی ہیں
جلوہ اس کا ہی جابجا دیکھا
ساری دنیا سے ماورا دیکھا
خواجہ میر درد نے کہا تھا
جگ میں آ کر اِدھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ثمینہ گل کی شعری میں شمعِ امید روشن ہے۔ آپ رجائیت کی نقیبب ہیں اور انسان کے روشن مستقبل سے پر امید ہیں۔ کہتی ہیں
اداس راتوں کے رتجگوں میں نئے ہزاروں دئیے جلیں گے
ہر ایک لمحہ دلیل ہو گا، ہر اک روشن مثال ہو گا
ثمینہ گل کی شاعری زبان و بیان کے اعتبار سے سادہ و سلیس ہے۔ مترنم اشعار میں سوز و ساز بھی ہے اور گداز بھی ہے۔ دیدم گلدست گل ہے جو رنگ و خوشبو کا حسین امتزاج ہے اور آخر ایسا کیوں نہ ہو یہ ثمینہ گل کے دل کی داستان ہے ، محبت کا بیاں ہے جو ابد نشان ہے۔ بقولِ حافظ شیرازی
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here