آج تک سنا تھا کہ اقتدار کی ہوس کیا ہوتی ہے، مسند اقتدار سے الگ ہونے کے بعد پاگل پن کی انتہا کو کیسے چھوا جاتا ہے، اپنی کرسی ملکی مفادات سے عزیز کیسے ہوتی ہے یہ سب کچھ آپ کو سابقہ حکومت کے ایوان اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد کی جانے والی حرکتوں میں بخوبی نظر آتی ہے۔ بلاشبہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، مگر کچھ آئینی عہدے اپنی خواہشات کو دبا کر یا پارٹی وفاداریوں سے بالا تر ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اخلاقیات سے عاری ہونے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔ ان کی کارکردگی پر بات کرنا تو اب انتہائی فضول بحث محسوس ہوتی ہے مگر صدر اور گورنر کے عہدوں پر تعینات پاکستان تحریک انصاف کے عہدے دار جانے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کر رہے ہیں۔ انسانی اخلاق کا تقاضہ ہے کہ معاشرے کو درست سمت لے کر جانے والے آئین اور قوانین کا احترام کیا جائے مگر صدر عارف علوی اور گورنر پنجاب عمر چیمہ نے جو زور آزمائی کا مظاہرہ کیا اس کا کیا فائدہ ہوا۔ اپنے آئینی عہدے کا استعمال کرتے ہوئے جو چند دن کی تاخیر وزیر اعلی پنجاب کے خلاف اور گورنر پنجاب کی نامزدگی میں ہوئی کیا وہ رک گئی۔ یقینا ایسا نہیں ہوا گورنر پنجاب بھی نامزد کر دیے گئے اور حمزہ شہباز نے وزیر اعلی پنجاب کا حلف اْٹھا لیا۔ مگر تاریخ میں عارف علوی اور عمر چیمہ نے اپنے نام پر جو عزت کمالی ہے وہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔ کیا سابق صدر پرویز مشرف ان نوٹنکی اور نوسربازوں سے کمزور تھے مگر جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو پرویز مشرف نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے وزراء سے نہ صرف حلف لیا بلکہ اپنے آئینی عہدے کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہ لایا۔مسلم لیگ نون کی حکومت ختم ہوئی تو صدر ممنون حسین نے بخوشی پاکستان تحریک انصاف سے حلف لیا اور اپنی مدت عزت سے پوری کر کے رخصت ہو گئے۔میں خوش ہوں تا کہ واقعی اگر آج حمزہ شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب نہ ہوتے، یا گورنر پنجاب کی نامزدگی نہ کی جا سکتی تو دل سے اعتراف کرتا کہ اپنے آئینی عہدے کی عزت کو پامال کرنے کا کچھ فائدہ ہوا ورنہ آج پوری قوم گواہ ہے کہ ان دونوں شخصیات نے آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کرکے دراصل اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ۔
٭٭٭٭