نیویارک ٹائمز کو بھی اِن دنوں موضوعات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اِسلئے اِس کے ٹیمپوریری رپورٹرز فضول موضوعات پر چالیس چالیس گز کی اسٹوری لکھ کر شائع کر ادیتے ہیں، اخبار شائع کرنے سے قبل اِس امر کی یقین دہانی کر لیتا ہے کہ شخص اِس حیثیت کا حامل نہیں کہ وہ اُس پر حرجانے کا دعوی کر سکے یا اُس کے اخبارکے بنڈل کو ٹائمز اسکوائر پر سر عام نذر آتش کر دے،ویسے بھی ٹائمز کی سرکولیشن 1.3 ملین سے کم ہوکر تقریبا” ساڑھے تین لاکھ رہ گئی ہے، بیشتر قارئین ڈیجیٹل پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ گھر میں کوڑے کرکٹ کا اضافہ نہ ہو۔بہر نوع تازہ ترین صورتحال میں نیویارک ٹائمزنے میئر ایرک ایڈیمز کی نائٹ لائف پر اپنی گند اچھالا ہے. اخبار لکھتا ہے کہ میئر ایرک ایڈیمز ڈاؤن ٹاؤن کے ایک ریسٹورنٹ لا بائیا کے بہت معزز سرپرست ہیں اور نہایت فخر کے ساتھ اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں تشریف لے جاتے ہیں۔اِس ذرہ نوازی کی متعدد وجوہات ہیں. اول تو اُنہیں لذیذ کھانے کی کوئی قیمت ادا نہیںکرنی پڑتی ، کھانے کی قیمتیں بھی کوئی چائینیز ٹیک آؤٹ کے بھاؤ کی نہیں ہوتی بلکہ فی انٹری 30 سے 60 ڈالر تک کا ہوتا ہے اور اگر اُس میں ڈرنک کی قیمت ملادی جائے تو فی کس سو ڈالر تو یقینی ہوجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ریسٹورنٹ کے مالکان ٹوئن برادرز جانی اور رابرٹ پیٹروسیئنٹس جنکا گہرا تعلق مافیا سے ہے اور وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں ایرک ایڈیمز کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ٹوئن برادرز پر 2014ء میں میڈیکل انشورنس اسکیم کے الزام میں فیڈرل کریمنل چارجز لگائے گئے تھے ، وہ کرائمز کی دنیا کے بدنام زمانہ شخصیت ہیں. ٹوئن برادرز نے لاکھوں ڈالرز حکومت کا ٹیکس دبایا ہوا ہے اور خصوصی طور پر بروکلین کے پیزیریا پر ٹیکس جس پر آئی ایر ایس نے چھاپہ مارا تھا اور نیویارک ٹائمز کو فخر ہے کہ اِس نے اِس خبر کی سب سے پہلے اشاعت کی تھی۔نیویارک ٹائمز کے رپورٹرز اور عملے کے دوسرے اہلکار ایک طویل عرصے سے میئر ایرک ایڈیمز کی یہ بھی نگرانی کرتے رہے ہیں کہ وہ ہفتے میں کتنے دِن لا بائیا کا دورہ کرتے ہیں، کھانے میں کیا کیا کھاتے ہیں اور جاتے وقت بِل کی ادائیگی بھی کرتے ہیں یا نہیں یا صرف منھ پوچھتے ہوے نکل جاتے ہیں. کسی اور راز کا افشا ہوا ہو یا نہیں لیکن ایک بات جو منظر عام پر آئی ہے کہ موصوف نے اِسی سال کے جون کے ماہ میں 14 مرتبہ لا بائیا جو ایک اٹالین ریسٹورنٹ سمجھا جاتا ہے کا چکرلگایا تھا۔ یہ کوئی بعید نہیں کہ ریسٹورنٹ کے ٹوئن برادرز نے خود نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر کی یہ توجہ مبذول کرائی ہو کہ اُس کے منافع کا بیشتر حصہ شہر کا میئر ہضم کر جاتا ہے ، اِس لئے کچھ کیا جائے۔لیکن میئر ایرک ایڈیمز نے نہ صرف لا بائیا کو اپنی نائٹ لائف کو رنگین بنانے کا ایک وسیلہ بنایا تھا بلکہ اِس کے علاوہ وہ ایک اعلی ترین نائٹ کلب ”زیرو بانڈ” جہاں عمائدین شہر، بزنس ٹائیکونز اور شہرہ آفاق ہستیاں جمع ہوتی ہیں وہ وہاں بھی اکثر و بیشتر نظر آتے رہے ہیں۔ ”زیرو بانڈ ‘ ‘ میں داخلے کی شرائط یہ ہے کہ ہر نئے آنے والے ممبر کو اپنی پاکٹ سے منھ دکھائی کے طور پر 5 ہزار ڈالر کی رقم کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے اور پھر سالانہ 4 ہزار ڈالر ممبر شپ فیس کا نذرانہ پیش کرناپڑتا ہے لیکن ہمارے شہر نیویارک کے لاڈلے اِن ادائیگیوں سے مستثنی تھے . وہ مفت کا جایا کرتے تھے اور بلکہ دوسرے ممبران سے اپنی انتخابی مہم میں چندہ دینے کیلئے اصرار بھی کیا کرتے تھے. یہی وجہ ہے کہ بعض ”زیرو بانڈ ” کے معزز اراکین اُن کی شکل دیکھتے ہی کلب سے بھاگ جاتے تھے۔
تاہم اب تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ میئر ایڈیمز نے اور کس کس جگہ اپنی مفت خوری کا کھاتہ کھولا ہے ، کس کس سُپر مارکیٹ میں رقم کی ادائیگی کے بجائے وہ اپنا آٹو گراف دے دیتے ہیں ٹیکسی اور اوبر
کے ڈرائیور ز کو رقم کی ادائیگی کی بجائے ٹریفک خلاف ورزی کی ٹکٹ تھمادی جاتی ہے. یہ اُنکے اختیار میں
داخل ہے۔بہرکیف یہ تو تھا نیویارک ٹائمز کا میئر ایرک ایڈیمزکے بارے میں سراغ لگانے کا ماحصل. درحقیقت ٹائمزکا یہ ایک وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر اُس شخصیت یا دنیا کی کوئی بھی حکومت خصوصی طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے پیچھے پڑ جاتا ہے اگر وہ نیویارک ٹائمزسے بیعت نہ کرے یا وہ کچھ نہ کرے جو ٹائمز چاہتا ہے۔ بیشتر اوقات ٹائمز امریکی حکومت کا ترجمان بھی بن جاتا ہے اور حکومت کے اشارے پر کسی بھی ملک کے سربراہ کی پگڑی اچھالنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کرتا. میئر ایڈیمز اور نیویارک ٹائمز ایک پیج پر نہیں سماسکیں ، لہٰذا ایک دوسرے کا دو مختلف موقف منظر عام پر آیا ہے، ماضی قریب میں میئر ایرک ایڈیمز کا یہ فیصلہ کہ وہ برانکس کے بودیگا کے اُس سیاہ فام مالک پر قاتلانہ حملے کے چارجز نہیں لگائینگے جس نے اپنا دفاع کیلئے ایک سفید فام ہوم لیس کو ہلاک کردیا تھا، نیویارک ٹائمز نے اُس پر بہت واویلا مچایا تھا، نیویارک ٹائمز نے ایرک ایڈیمز کی رہائش پر بھی ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ نیوجرسی کے رہائشی ہیں، واضح رہے کہ نیوجرسی کا رہائشی نیویارک سٹی کا میئر نہیں بن سکتا ہے. نیویارک ٹائمزکی یہ بھی حکمت عملی ہے کہ میئر ایرک ایڈیمز کی ہسپانوی کمیونٹی کے ساتھ کھل کر تصادم کرادیا جائے تاکہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار سے فارغ ہوجائیں،ٹائمز سمجھتا ہے کہ ایرک ایڈیمز ایک پراسرار شخصیت کے مالک ہیں ، اُ نکے پیچھے رازوں کا ایک سمندر پنہاں ہے اور وہ اُن رازوں سے پردہ اٹھاکر اپنے اخبار کو منافع بخش بنا سکتا ہے۔