وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سیلاب متاثرہ علاقوں اور افراد کی امداد کے نظام کو شفاف بنانے کے لئے فلڈ ڈیجیٹل ڈیش بورڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ڈیش بورڈ میں سیلاب کی صورتحال، متاثرین کی ضروریات اور کسی مخصوص علاقے میں امداد کی تقسیم کا نظام براہ راست وزیر اعظم کی نگرانی میں آجائے گا۔ڈیجیٹل ڈیش بورڈ ہر شہری کو یہ سہولت فراہم کرے گا کہ وہ متاثرین کے لئے ملنے والی امداد اور اس امداد کی تقسیم کا سارا ریکارڈ خود ملاحظہ کر سکے گا۔ڈیجیٹل ڈیش بورڈ کا قیام اس لحاظ سے مستحسن ہے کہ وطن عزیز میں قدرتی آفات سے پہنچنے والے نقصان کا ڈیٹا ہمیشہ نامکمل اور نا قابل اعتبار رہا ہے ۔نامکمل ڈیٹا کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا کام پسند نا پسند کی بنیاد پر ہوتا رہا۔کئی متاثرہ علاقوں میں احساس محرومی اور نظر انداز کئے جانے کا احساس بڑھنے لگا۔فلدڈیجیٹل بورڈ قائم ہونے کے بعد سیلاب کی صورتحال، سیلاب متاثرین کی تعداد ، متاثرین کی ضرورت اور امداد کی نوعیت تک کی تفصیلات آن لائن دستیاب ہو سکیں گی۔پاکستان کی طرح جنوبی ایشیا ئی ملک بھوٹان برسوں سے سیلاب کے مسائل سے دوچار ہے۔ ڈھلوانی سطح ،ٹاپوگرافی اور آب و ہوا کی وجہ سے آنے والی دہائیوں میں بارش میں اضافہ متوقع ہے۔وہاں ماحولیاتی تبدیلی خاص طور پر مون سون کے موسم میں بڑے خطرات پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جان و مال کو براہ راست سیلاب سے نقصانات کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بھوٹان کی حکومت نے اس ضرورت کو تسلیم کیا ہے کہ ملک میں بار بار آنے والے سیلاب کے مسائل کا فوری انتظام کیا جائے۔ وہاں سیلاب سے بچاو کے لیے 11ویں پانچ سالہ منصوبے میں 728 ملین کے بجٹ کی منظوری دی گئی۔ سیلاب کی نگرانی کے لیے FEMD قائم کیا گیا ہے۔ملک میں معمول کی انتظامیہ کام کرتی ہے تاہم FEMD کے قیام سے سیلاب اور اس سے متعلقہ مشکلات کو قابو کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کے لئے تکنیکی صلاحیت اہم ہے ۔ بھوٹان کی طرح ترقی یافتہ ریاست برطانیہ نے بھی ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے سیلاب کو ایک خطرہ قرار دیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑی سماجی اور اقتصادی تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے، پورے برطانیہ میں سیلاب بڑھنے کا امکان ہے۔اگرچہ سیلاب کو مکمل طور پر روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے لیکن سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سیلاب کے خطرے کینشاندہی کسی بھینوع کی منصوبہ بندی کے لیے ایک ضرورت ہے۔قابل اعتماد سروے کی موجودگی میںپل ، سڑکیں،سرکاری عمارات،کاروباری تعمیرات وغیرہ کو بچایا جا سکتا ہے۔دنیا کے تمام چھوٹے برے ممالک قدرت آفات سے بچاو کی طویل المدتی حکمت عملی تیار کرتے ہیں ۔پاکستان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔پاکستان جیسے ملک میں انفاسٹرکچر کی تعمیر مشکل ہوتی ہے ، حکومتیں فنڈز کی کمی کا شکار رہتی ہیں ۔ ہر سال یا ہر چند سال بعد اگر سیلاب ترقیاتی ڈھانچے کو تباہ کرتا رہے تو ملک کے وسائل ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔لازم ہے کہ ضروری انفراسٹرکچر کی حفاظت کی جائے ۔ موجودہ انفراسٹرکچر کے لیے سیلاب کے خطرے کو جاننے کا مطلب ہے کہ سیلاب کے دوران اس سے حفاظت کے لیے کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ سیلاب سے بچاو کے لیے معلومات رکھنے سے وقت اور پیسہ بچ سکتے ہیں اور سیلاب آنے کی صورت میںنقصان کو محدود کیا جاسکتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ دو ہزار دس سے دو ہزار پندرہ تک ہر سال سیلاب آتے رہے۔تب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں تھیں۔حالیہ سیلاب کے وقت مرکز مین مسلم لیگ ن بر سر اقتدار ہے،پنجاب اورکے پی کے میں تحریک انصاف حکمران ہے ،سندھ میں کئی عشروں سے پیپلز پارٹی حکمران ہے لیکن جس نوع کے معیاری سروسیلاب سروے کی ضرورت ہے اس پر کام نہیں کیا گیا،سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی کہانی اس حد تک مایوس کن ہے کہ دو ہزار دس کے سیلاب سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کی رپورٹ پر آج تک عملدرآمد کی نوبت نہیں آ سکی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) پنجاب نے صوبے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا سروے شروع کر دیا ہے۔گزشتہ ہفتے ایک بیان میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان نے بتایا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں تحصیل اور پٹوار سرکل کی سطح پر 34 سروے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ نقصانات کے تخمینے کے لیے ایک شہری یونٹ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں اور ڈیجیٹل سرویلنس، لوکیشن ڈیش بورڈ کے ذریعے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے گا۔ سیلاب میں پھنسے 75,552 افراد کو بچا لیا گیا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 184 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں سے 45 کام کر رہے ہیں۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق اب تک 38,883 خاندانوں میں خیمے اور 1,16,620 گھرانوں میں راشن تقسیم کیا جا چکا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر دوست ممالک امداد بھیج رہے ہیں ،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے حالیہ دورے کے دوران بھی وزیر اعظم نے شفافیت یقینی بنانے کا وعدہ کیا ۔روزنامہ نیوز نے انہی سطور میں کورونا کے دوران این سی او سی کی طرح نیشنل فلڈ ریسپونس کوارڈینیشن سینٹر قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی ۔امید کی جاتی ہے کہ ڈیجیٹل پورٹل متاثرہ علاقوں اور افراد کی مدد کے کاموں میں بہترین معاونت فراہم کر سکے گا۔
٭٭٭