فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

0
82

محترم قارئین! وہ وقت قریب آگیا ہے جب انسان کو اپنے اعمال کے نتیجے سے دوچار ہونا ہے۔ عجب بات ہے کہ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، مجبور ہیں، اس لئے کہ ہم مصروف ہیں اور پھر یہ مصروفیت ایک نتیجہ مرتب کرتی ہے۔ ایک نتیجہ نہیں دو نتائج ایک ظاہری نتیجہ اور ایک باطنی یامابعد کا نتیجہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے کہ انسان نتیجہ حاصل ہونے پر گھبرا جاتا ہے کہ اس نے جو سوچا تھا”وہ تو نہیں ملا” اس نے جو سوچا تھا، نتیجہ اس کے علاوہ ملا۔ اگر نتیجہ سوچ کے مطابق بھی ہو، تب بھی اس نتیجے سے ایک نیا عمل پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ عمل انسان کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے اور جب آرام نصیب ہوتا ہے تو ساتھ ہی بیماری کا حملہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیماریاں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں بہرحال محنتی آدمی کا آرام میں داخلہ بے آرامی پیدا کرتا ہے۔ مضطرب انسان جب سکون میں آتا ہے، تو اسے ایک عجیب قسم کے اضطراب کا سامنا ہوتا ہے انسان زندگی کے سکون کی خاطر شادی کرتا ہے اور شادی اس کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے شادی کا لفظ ہی خوشی کا مترادف ہے۔ اور اگر اس کے نتائج اور اس کی تفسیر اپنے معنی کے برعکس نکل آئے، تو انسان اپنے آپ کو ابتلا میں محسوس کرتا ہے شادی ایک ایسا تجربہ ہے، جس سے انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا، شادی اور محبت اگر الگ الگ انسانوں سے ہو تو ایک طرفہ عذاب ہے۔ انسان میں عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ فرض اور شوق کا تصادم ہی ابتلا ہے۔ زندگی انسان کو مبتلا ہی رکھتی ہے۔ انسان ناموری کے حصول کے لئے کیا نہیں کرتا، ناموری کی خواہش ایک کرب ہے۔ ایک ابتلا ہے ایک مصیبت ہے اور اس مصیبت کا انجام ایک نئی مصیبت کی شکل میں حاصل ہوتاہے۔ ناموری حاصل ہوجائے، تو سکون حاصل نہیں ہوتا جب انسان کو اس حقیقت کا عمل ہوجائے کہ وہ جن لوگوں میں مشہور ہے، وہ لوگ جھوٹے ہیں تو یہ ناموری ایک تہمت سے کم نہیں ہوتی۔ جھوٹے لوگوں میں پسند کیا جانے والا سچے انسانوں میں ناپسند ہوگا۔ ہر نامور انسان کسی نہ کسی طبقے میں بدنام کہلایا جاتا ہے۔ درویش دنیا داروں میں پسندیدہ نہیں ہوتا اور دنیا دار درویشوں میں ناپسندیدہ رہتا ہے۔ سورج کی روشنی کو چمگادڑ الو، چور اور ڈاکو ناپسند کرتے ہیں بہرحال شہرت وناموری ایک مستقل ابتلاء ہے جہاں انسانوں کی خوبیاں مشہور ہوتی ہیں۔ وہاں ان کی خامیاں بھی مشہور ہونے لگ جاتی ہیں ایک معمولی انسان کا گناہ بھی معمولی ہے لیکن ایک مشہور کا گناہ ایک مشہور گناہ ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنے دائرہ کار میں مبتلا ہے۔ اپنے پیشے کے حصار میں جکڑا ہوا ہے۔ انسان مصروف ہے ایک نامعلوم منزل کی طرف سفر کرنے میں اور یہ سفر کبھی رکتا نہیں ہے۔ بڑی اذیت کا سامنا ہے آدمی کا دل بڑا ہے اور اس دل پر بڑے مصائب ہیں۔ علم کا متلاشی ایک نئی ابتلا میں ہے وہ ماضی کے مطالعہ سے مستقبل کو روشن کرنا چاہتا ہے شیکسپیئر کی اپنی تعلیم نہ تھی اسے فطرت نے علم دیا آج کے سکالر کی اذیت یہی ہے کہ وہ فطرت سے کٹ کر علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بڑا مرحلہ ہے ابتلاء ہے اس ابتلا کے المیہ کا اجمال یہ ہے کہ ایم۔ اے(ادبیات) میں ان لوگوں کی کتابوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ جو خود تعلیم یافتہ نہ تھے۔ غالب کا شعر سند ہے لیکن غالب کے پاس سند نہیں ہے ۔وارث شاہ نے پنجابی زبان کا ایم اے نہ کیا تھا لیکن اس کے بغیر ایم اے نہ ہوگا انسان کہیں غلط فہمی میں مبتلا ہے وہ کیا پڑھ کر کیا بننا چاہتا ہے؟
ڈاکٹر مریضوں کو بچاتے بچاتے خود موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ دل کے امراض کا ماہر دل کے عارضے سے مرتا ہے تعجب ہے، ابتلاء ہے دراصل ہر انسان ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک عجیب بیماری لاحق ہے ایک مہلک مرض میں انسان مبتلا ہے۔ مہلک مرض وہ ہوتا ہے جس کا انجام موت ہو اور یہ مرض زندگی کا مرض ہے۔ اس کا انجام موت ہے۔ انسان ایک اور مرض میں بھی مبتلا ہے خدائی کرنے کی خواہش نے اس سے انسانیت بھی چھین لی ہے۔ جو انسان نہ بن سکا وہ اور کیا بنے گا ہر آدمی بھاگے چلا جارہا ہے کیا قیامت آنے والی ہے؟ کچھ عذاب نازل ہو رہا ہے؟ انسان کے پاس مصروفیت ہے۔ فرصت نہیں، اس کے پاس وقت نہیں ہے خوشی ملے تو ہنسنے کا وقت نہیں، غم ملے تو رونے کا وقت نہیں، کوئی مر جائے تو جنازے میں شامل ہونے کا وقت نہیں، عذاب تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی ذات کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔ وہ اپنے کام میں مبتلا ہے، کام، کام اور صرف کام یہ کام کس کام کا، جب اس کے انجام کا ہی پتہ نہیں۔ انسان جلدی میں ہے۔ آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو پائوں تلے زمین نکل جاتی ہے زمین کی طرف دیکھتا ہے تو سر پر آسمان گرنے کا خطرہ لاحق ہے انسان کیا کرے؟ محبت کرنے والوں کی ابتلا سب سے سخت ہے۔ اپنی زندگی اور دوسروں کا خیال عجب بات ہے، راتیں اپنی اور باتیں کسی کی، ابتلاء ازل ہے۔ اس سے مضر نہیں بس اللہ پاک ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین) ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here