ملک مضبوط کرنے والی جمہوریت کی شکل!!!

0
73

یہ تجاویز سنجیدہ فکر حلقوں نے اہم قرار دی ہیں۔ صدر علوی نے کہا کہ جمہوریت سے ملک مضبوط بن سکتا ہے۔ تمام سیاست دانوں کا قومی مفاد کی خاطر یکجا ہونا صدر مملکت کی دوسری تجویز ہے۔ ان کی تیسری تجویز یہ ہے کہ ملک میں عام انتخابات کا فیصلہ کرلیا جائے۔ صدر مملکت سیاسی ٹکرائو اور انتشار کو روکنے کے لیے پچھلے 10 ماہ میں ذاتی حیثت میں کئی بار کوشش کر چکے ہیں۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جامعہ کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران ملک میں استحکام لانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ صدر عارف علوی نے متعدد بار پی ڈی ایم تحریک انصاف اور اہم قوتوں کے درمیان مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنیکی پیشکش کی جسے تصادم پر آمادہ سیاسی قوتوں نے نظر انداز کر دیا۔ تصادم سے روکنے کا دوسرا حکم سپریم کورٹ سے جاری ہو سکتا تھا۔ سیاسی لشکروں کی ضد کی حالت یہ ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی ہدایت کرتی ہے لیکن حکومت اور متعلقہ ادارے اس میں رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں۔ پاکستان سیاسی ہی نہیں معاشی اور سماجی حوالے سے بھی کمزور ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں۔ سماج حاکمیت کا جو تصور رکھتا ہے سیاسی جماعتیں اسے اپنے منشور میں جگہ دیتی ہیں۔ جوں جوں سماج کی ضروریات اور سوچ میں تبدیلی رونما ہوتی ہے سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو اس نئی فکر سے ہم آہنگ کرتی جاتی ہیں۔ جن معاشروں میں سیاسی جماعتوں میں لچکدار رویہ برقرار رہتا ہے وہاں جمہوریت فائدہ مند نظام کے طور پر مقبول رہتی ہے۔ پاکستان میں بار بار آنے والی آمریت نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ یوں سماج اور اقتدار کا تعلق مضبوط نہیں ہو پایا۔ پھر جو جماعتیں جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آئیں انہوں نے اپنے داخلی ڈھانچے میں خاندانی آمریت شامل کرلی۔ اس سے سماج کی اجتماعی فکر چند خاندانوں کی یرغمال بن گئی جس جمہوریت سے ملک مستحکم ہوتے ہیں یہ وہ شکل نہیں جو ہمیں درپیش ہے۔ وطن عزیز میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ جمہوری عمل سے وابستہ شخصیات اور اداروں کا غیر جمہوری رویہ ہے۔ جمہوری رویہ ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات رابطہ اور مکالمہ کا نام ہے۔ سیاستدانوں کا جمہوری طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملے میں ذاتی عداوت کو درمیان میں نہیں لاتے۔ ان کی سرگرمیوں اور سوچ کا محور ریاستی مفاد ہوتا ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اقتدار میں آئی تو سب سے پہلے اپنے رہنمائوں کے مقدمات ختم کرانے کا انتظام کیا گیا۔ جب دیکھا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں سزا ہو سکتی ہے تو نیب کے قوانین بدل دیئے۔ یہ طرز عمل سیاسی اور جمہوری نہیں بلکہ خود غرضانہ ہے۔ اسی طرح حالیہ دنوں سن 2002 سے 2023 تک توشہ خانہ کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مکمل ریکارڈ نہیں۔ تاہم جو کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ امانت داری کے بنیادی وصف تک سے محروم ہے۔ سماج کی اجتماعی سوچ سے لاتعلقی اور حکمرانوں کا ہوس زر میں مبتلا ہونا جمہوریت کو کمزور کرنے کی وجہ بنا ہے۔ جمہوریت اس وقت ملک کو مضبوط کرتی ہے جب ہر جماعت دوسری کے حق حکمرانی کو تسلیم کرلے۔ امریکہ برطانیہ اور بھارت میں سیاست دانوں کی باہمی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ وہاں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسری کے خلاف کارکردگی پالیسی اور مقبولیت کے معاملات پر تنقید کرتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ تنقید ناقابل برداشت سطح پر پہنچ جاتی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اکثریت کے ووٹ لینے والی جماعت کا حق حکمرانی تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ پاکستان کے ووٹروں نے پی ٹی آئی کو اکثریت دے کر حق حکمرانی سونپا تھا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اکثریت کو دائو پیچ سے اقلیت میں بدل دیا سیاسی اور انتظامی ہتھکنڈوں سے ملک کی مقبول جماعت کو پارلیمنٹ سے استعفوں پر مجبور کردیا۔ اس کے حق حکمرانی سے انکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ پورے نظام کی مخالفت میں باہر آ رہے ہیں۔ حالات کچھ عرصہ اس روش پر رہے تو جمہوریت کی صورت بدلنے کا خدشہ موجود ہے۔ جمہوریت پرامن انتقال اقتدار اور سماجی شراکت کا نظام ہے۔ بادشاہ فوجی آمر یا وراثتی حکمرانی مخصوص طبقات کا اقتدار ہوتا ہے عام آدمی اس میں شریک نہیں ہوتا۔ جو لوگ سیاسی عمل کا حصہ ہیں انہیں اس امر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاست میں وہ کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے سوال کا جواب ہی طے کرے گا کہ پاکستان کا نظام خرابیوں سے نجات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ سنگین اختلافات کو ختم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ سیاستدانوں کا کسی ایک قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے ہے۔ پاکستان کو سماجی ہم آہنگی اور امن درکار ہے۔ سرمایہ کاری کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں عوامی شراکت کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ حکومتی اور عوامی سطح پر سادگی و کفایت شعاری کو رواج دینا ہے۔ جمہوریت کی حقیقی اقدار اور روایات کو پنپنے کا موقع دینا ہے۔ باقی قومی مفاد اس فضا میں تکمیل کے مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ عام انتخابات کروا کر تمام سیاسی قوتوں کو نئے آغاز کا موقع دیا جانا ضروری ہو چکا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here