ریاست کہاں ہے؟

0
154
جاوید رانا

اللہ رحم کرے وطن عزیز پاکستان پر جہاں محاذ آرائی، بغض و کینہ اور بد عہدی انتہائی درجہ پر پہنچ چکے ہیں، آئین، قانون، ریاست، سیاست، خدمت، شرافت غرض کوئی جہت ایسی نہیں ہے جس کی دھجیاں نہ بکھر گئی ہوں۔ حق اور سچ کہنے والے راندۂ درگاہ کئے جا رہے ہیں، نیکی پر بدی حاوی ہو رہی ہے، وہ بھی اس ماہ مبارک میں جسے اللہ رب العزت نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور شیطان کو بند کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ سیاست میں گند اور دوغلا پن تو ایک عرصے سے جاری ہے اور انتہاء یہ ہو چکی ہے کہ سابق وزیراعظم اور اُس کے وفادار ساتھیوں پر سینکڑوں مقدمے، غداری، بغاوت، دہشتگردی اور اسٹیبلشمنٹ کی تضحیک کو بنیاد بنا کر قائم کئے جا رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور لوگوں کو اس طرح غائب کیا جا رہا ہے کہ ان کی کوئی خبر نہیں مل رہی ہے۔ حکومتی فاشزم تو ملکی تاریخ کی بدترین صورت اختیار کر چکا ہے، افسوس یہ ہے کہ اس فاشسٹ صورتحال کی بیخ کنی کرنے کے برعکس آئینی و عدالتی اور انتظامی و اسٹیبلشمنٹ ذمہ داران بھی صرف ایک فرد اور عوامی حمایت و بھرپور سپورٹ کے حامل عمران خان کو مائنس کرنے کی اس سازش میں آلۂ کار کا کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ہماری سطور بالا میں عرض کی گئی تشویش محض تصوراتی نہیں بلکہ ان حقائق، واقعات اور انکشافات کے باعث ہے جو تسلسل کیساتھ سامنے آرہے ہیں۔ اپریل 2022ء سے جو کھلواڑ وطن عزیز اور عوام کیساتھ ہو رہی ہے وہ ہم آپ کے گوش گذار کرتے رہے ہیں۔ اب رفتہ رفتہ وہ شواہد و واقعات سامنے آرہے ہیں جن کا اظہار عمران خان مسلسل کرتا رہاہے۔ جنرل باجوہ کے حوالے سے صحافی شاہد میتلا نے انٹرویو (بعد میں کالم) کے حوالے سے جو انکشافات کئے ہیں وہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ عمران کی حکومت ختم کئے جانے میں مقتدرین نے کیا کردار ادا کیا اور کس طرح تیرہ جماعتوں کے ٹولے کو ملا کر یہ کھیل کھیلا گیا۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم یہی عرض کر سکتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے کسی بھی ایسے انٹرویو دینے کی تردید کے باوجود گزشتہ ایک سال میں نا اہل حکومت کے عمران مخالفت اور اسے عوامی حمایت و مقبولیت کے باوجود جس طرح ظلم و بربریت، مقدمات میں اُلجھانے، پی ٹی آئی کے رہنمائوں و کارکنوں اور ہمدرد میڈیا کی قید و بند، تشدد اور لاپتہ کئے جانے نیز عمران خان کو قتل کرنے کے گھنائونے ایجنڈے کا بازار گرم کیا گیا ہے، اس ملک دشمن کھیل میں کون کون سے کردار اور قوتیں ملوث ہیں اور عمران خان کی مقبولیت و محبوبیت سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔ کپتان کیخلاف اس کھیل میں حکمران جماعت بالخصوص مریم نواز، رانا ثناء اللہ حتیٰ کہ درآمدی وزیراعظم اور ان کے پٹھو نگران صوبائی حکمرانوں کیساتھ بیرو کریسی کا منفی کردار تو بالکل عیاں ہے، الیکشن کمیشن نے بھی اپنا کھیل کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں یکم مارچ کے فیصلے کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کے انعقاد کے صدر مملکت کے حکم کے مطابق 31 اپریل کو کرانے پر الیکشن کمیشن نے امپورٹڈ حکومت و متعلقہ اداروں کے ا شتراک سے بوجوہ ملتوی کر کے 8 اکتوبر کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو عمران اور پی ٹی آئی نے اس کیخلاف آئین شکنی، توہین عدالت کی درخواست دی، پہلی سماعت پر ہی بنچ کے دو اراکین منصور علی شاہ و جمال مندوخیل نے اپنے یکم مارچ کے اختلافی نوٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا فیصلہ 3/2 سے 90 دن میں انتخابات کے انعقاد کیلئے نہیں بلکہ 4/3 کے پٹیشن کے ناقابل سماعت ہونے پر تھا نیز یحییٰ آفریدی و اطہر من اللہ کی آبزرویشن بنچ سے علیحدہ نہ ہونے کے باعث فیصلے کا حصہ رہیں۔ اب اس معاملے پر قانونی موشگافیاں اور بحثیں ہوتی رہیں گی لیکن عمران کی مقبولیت و کامیابی سے ڈرے ہوئے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے مہرے اپنے مقصد میں وقتی طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہمارا تجزیہ نہ صرف یہ ہے کہ حالات مزید انتشار و کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں بلکہ الیکشن پر سوالیہ نشان ہے، بغض و کینہ کی سیاست اور عوام کے محبوب قائد کو سیاسی ایرینا سے دور کرنے کی حکومتی و اداراتی سازش سے نہ صرف جمہوریت کا جنازہ نکالنے بلکہ آئین و قانون اور معاشرت سے انحراف کرتے ہوئے ریاست کو بھنڈار خانہ بنانے کی راہ استوار کی جا رہی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں ہر دو جسٹس صاحبان کا ”چیف جسٹس کے ون مین شو کے اختیار اور آئین حکومتیں گرانے یا بنانے کیلئے نہیں” مؤقف اس طرف اشارہ ہے کہ حالیہ سیاسی تماشہ بازی میں اب انصاف کے ایوانوں سے بھی کوئی اُمید نہیں۔ سونے پر سہاگہ کہ بدی اور غرض کے حکومتی گماشتوں اور جعلی اقلیت نے قومی اسمبلی میں اختلافی فیصلے کو بنیاد بنا کر ایک متفقہ قرارداد پاس کر کے از خود نوٹس اور الیکشن کمیشن کے اختیارات کے حوالے سے عدالت عظمی خصوصاً چیف جسٹس کے پر کاٹنے کی واردات کر دی ہے۔ سوال ہے کہ ایک ایسی اسمبلی سے جس میں دو صوبوں اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کی نمائندگی ہی نہیں منظور کردہ قرارداد کو صدر مملکت منظور کرینگے؟ دوسری جانب اقتدار کے بھوکے یہ بھول گئے ہیں کہ نیب میں ترامیم کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اگر اس قرارداد کے رد عمل میں عدالت عظمیٰ کا ان چور ڈاکو حکمرانوں کیخلاف فیصلہ آیا تو انجام کیا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی عدم استحکام و بحران مزید بڑھ جائیگا۔
ان تمام تر حالات کے تناظر میں یہی نظر آتا ہے کہ پاکستان اس راہ کی جانب گامزن ہے جہاں ریاست نام کی کوئی جہت نہیں ہوگی۔ ریاست کے ستون، آئین، مقننہ، اسٹیبلشمنٹ (عسکری و عدالتی) جب اپنی بنیادوں سے ہٹ جائیں تو کوئی بھی ملک محض وجود کی حدتک ہی قائم رہتا ہے لیکن امن، سکون، تہذیب، یکجہتی و سلامتی سے محروم ہو کر انتشار، نفاق، تقسیم، بد امنی و خلفشار کی تصویر بن جاتا ہے۔ ہمیں کہتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے کہ سیاسی طور پر تو ہمارا وطن پہلے ہی صوبائیت، زبان، علاقائیت کی بناء پر منقسم ہے، پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان ایک ریاست کے اجزاء نظر نہیں آتے بلکہ بیان کردہ تفریق پر حکومتی، سیاسی و معاشرتی ریاستیں ظاہر ہوتے ہیں انتخابی نتائج بھی اسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک و عوام سیاسی ہی نہیں معاشی نا ہمواریوں، دو وقت روٹی سے بھی محرومی کے باوجود ایک ہی قائد کو اپنی مشکلات کے حل کا درماں اور مسیحا سمجھتے ہیں اور عمران خان کی محبت، موجودہ نا اہل حکمرانوں سے نفرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لاہور میں اقبال پارک کا تاریخی جلسہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دوسری طرف سیاست سے ہٹ کر بھی جو لُوٹ مار، ڈکیتی و چور بازاری، نفرت اور آبرو ریزی و فحاشی اس مبارک ماہ میں بھی نظر آرہی ہے، اس حقیقت کا آئینہ ہے کہ ریاست کا کوئی وجود نہیں، ہمارا وطن کے کرتا دھرتائوں سے یہی سوال ہے ”ریاست کہاں ہے”۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here