محترم قارئین! تبریز شہر میں ایک عابدو زاہد شخص رہتا تھا۔ جب لوگ نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے یہ عابد شب بیداری کرتا اور عبادت الٰہی میں مشغول رہتا تھا۔ ایک رات وہ اپنی عبادت میں مشغول تھا کہ ایک چور اس کے پڑوس میں گھس گیا۔ اس عابد نے آہٹ کی آواز سنی تو شور مچا دیا۔ جسے سن کر پڑوسی جاگ گئے اور اب وہاں چور کا رُکنا محال ہوگیا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر وہاں سے بھاگا چور کے جانے کے بعد عابد کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں نے اپنے پڑوسی کے ساتھ تو نیکی کی لیکن اس چور کے رزق کو اس سے دور کر دیا۔ یہ سوچ کر وہ عابد اپنی جگہ سے اٹھا اور چور کی منزل کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگا اور کچھ ہی دیر کی مسافت کے بعد اس چور کو جا لیا۔ چور اسے دیکھ کر ڈر گیا اور بھاگنے کی کوشش کی اس عابد نے چور سے کہا کہ بھائی تو مجھ سے کیوں ڈرتا ہے؟ میں تو ایک عرصہ سے تجھ جیسے بہادر اور شہ زور کی تلاش میں تھا تو میرا ساتھی بن جاہم دونوں مل کر چوری کیا کریں گے اور جلد ہی دونوں امیر ہو جائیں گے۔ چور نے اس عابد کی بات سنی تو رک گیا عابد نے کہا کہ اس وقت ایک ٹھکانا ایسا ہے جس کے متعلق مجھے علم ہے۔ اگر ہم وہاں گئے تو ہمیں ضرور کچھ نہ کچھ ملے گا؟ چور نے عابد کی بات سنی تو فوراً رضا مند ہوگیا اور عابد اسے گھُما پھرا کر ا پنے گھر لے گیا اور چور سے کہا کہ تم باہر رکو میں دیوار پھلانگ کر اندر جاتا ہو اور جو مال ہاتھ لگا وہ میں باہر پھینکتا جائوں گا یہ کہہ کر وہ عابد اپنے گھر گھس گیا اور اس عابد کے گھر میں مال وزر نام کی کوئی شے موجود نہ تھی اس نے اپنے کپڑے اتار کر اس چور کی جانب پھینکے اور پھر چور چور کی آواز لگا دی۔ چور نے جب شور سنا تو وہ بھاگ گیا اور اس عابد نے شکر ادا کیا کہ اس نے کسی نہ کسی طرح چور کی مدد کردی۔ حضرت شیخ سعدی رضی اللہ عنہ نے اس حکایت میں ایک عابد اور چور کا قصہ بیان کیا ہے کہ عابد کے پڑوس میں ایک چور آگیا اور اس نے چور کی آہٹ سن کر شور مچا دیا جس کی وجہ سے وہ چور بھاگ گیا پھر اس عابد کے دل میں خیال آیا کہ اس نے چور کے رزق کو اس سے دور کردیا تو وہ اس چور کے پیچھے گیا اور اسے لے کر اپنے گھر آگیا اور اسے اپنے کپڑے دے کر پھر چور چور کی آواز لگا جس پر وہ پھر بھاگ نکلا اس عابد نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا کہ اس نے چور کی کسی نہ کسی طرح مدد کردی ہے۔ ظاہر ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہر شخص کے ساتھ نیکی کرتے ہیں خواہ وہ نیک ہو یا برا ان کے اس احسان کی بدولت بے شمار گناہ گار اپنے گناہوں پر نادم ہو کر تائب ہوگئے۔ اور اپنے خدا جل جلالہ سے صلح کرلی۔ کچھ لوگ مسجد میں بیٹھے ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ وہ ملک کا شہزادہ آگیا وہ شہزادہ اس وقت نشے میں دھت تھا۔ اس نے آتے ہی ان لوگوں کو گالیاں دینا شروع کردیں۔ جب وہ شہزادہ وہاں سے چلا گیا تو ان میں سے ایک شخص نے اپنے مرشد سے کہا کہ یہ بدکرددار تو اس قابل ہے کہ اس کے حق میں بددعا کی جائے۔ لہذا آپ اس کے حق میں بددعا کریں اس نے جس طرح ہماری اور اللہ عزوجل کے گھر کی توہین کی ہے۔اللہ جانے اور کتنے لوگوں کو یونہی تنگ کیا ہوگا مرشد نے جب مرید کی بات سنی تو اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور کہا!
الٰہی یہ شہزادہ بہت اچھا ہے اسے ہمیشہ خوش وخرم رکھنا مرشد کی دعا سن کر مرید حیران رہ گیا اور وہ بولا! حضرت یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ اس فاجر وغاشق کے حق میں دعا کرتے ہیں مرشد نے جواباً فرمایا کہ تم خاموش رہو تم وہ نہیں جانتے جس کا علم میرے پاس ہے کچھ دنوں بعد مرشد کی کہی ہوئی باتیں اس شہزادے کے کانوں میں گئیں۔ اس نے اس وقت شراب نوشی اور دیگر تمام برائیوں سے توبہ کرلی اور اپنے ایک خاص قاصد کے ذریعے مرشد کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرے پاس آئیں گے تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی۔ مرشد نے اس شہزادے کی دعوت قبول کرلی اور شہزادے کو زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ اس سے قبل جو زندگی گزار رہا تھا وہ اسے ہلاکت میں مبتلا کرنے والی تھی شہزادے نے ان کی نصیحت کو قبول کیا اور اپنے تمام آلات موسیقی اور شراب کے جام تڑوا دیئے۔ اور نیک لوگوں کی صحبت اور طریقہ اختیار کرلیا۔ اب اس شہزادے کا تمام وقت عبادت الٰہی میں بسر ہوتا تھا اور اس کا اپنی گزشتہ زندگی سے کوئی واسطہ نہ رہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ وہ اپنے باپ کی نصیحت کو قبول نہیں کرتا تھا اور اب ہر وقت مسجد میں بیٹھا عبادت الٰہی میں مشغول رہتا تھا حقیقت یہی ہے کہ اپنے اعلیٰ اور بہترین اخلاق کے ذریعہ دوسروں کو اچھی اور اعلیٰ زندگی کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے اور سخت بات کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ نرم بات کا ہوتا ہے۔ شیخ سوری رضی اللہ عنہ کا اس حکایت کے ذریعہ ہمیں اچھے اخلاق کی طرف رغیت دلانا مقصود ہے یقیناً نبی پاکۖ نے اپنی ساری زندگی لوگوں کی تریت اچھے اور اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ فرمائی ہے۔ عرب کے بدوئوں کو جہنم کے راستہ سے ہٹا کر جنت کا مسافر بنا دیا بلکہ جنت کا بیان کرنے والا بنا دیا ،اسی وجہ سے لوگوں نے آپ ۖ واصحابہ وسلم کو صادق وامین کا لقب دیا۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ ہمیں حقائق کو سمجھ کر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ثُمہ آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے