پاکستان میں ایک طرف مہنگائی کے طوفان نے زندگی کو عذاب بنا دیا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت مہنگائی میں کمی کی بجائے سیاسی چالوں سے عوامی توجہ کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے ، کبھی عمران خان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے تو اگلے ہی گھنٹے میں ان کی دوبارہ گرفتاری کی خبر چلا دی جاتی ہے ، عوام اور میڈیا کی توجہ سارا سارا دن سیاسی امور پر مرکوز رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ فی الحال مہنگائی کے متعلق بھول جائیں اور حکومت حسب معمول ہر 15 روز بعد پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی بم گراتے رہیں۔یوں لگتا ہے کہ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد چھلکنے لگا ہے۔ اور اب عوام احتجاج کے بعد تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوامی پریشانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگوں نے بجلی محکمے کے نچلے عملے کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔تشدد کا ایسا ہی ایک واقعہ جمعرات کو کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں پیش آیا جہاں پر خود ساختہ آل سٹی تاجر اتحاد کے رہنما شرجیل گوپلانی کی سربراہی میں ایک گروہ نے کے الیکٹرک کی فیلڈ ٹیم پر حملہ کیا اور انہیں تشدد کے بعد یرغمال بنالیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ سوشل میڈیا پر ملتان سے بھی سامنے آرہا ہے، جہاں ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے اور لوگ بلوں کی ادائیگی روکنے اور بل جلا کر احتجاج کررہے ہیں۔اس عوامی احتجاج میں سیاسی جماعتیں بھی شریک ہونے لگی ہیں جس سے صورتحال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اسی لیے احتجاج نے نگراں حکومت کو بھی جگا دیا ہے۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں اضافے پر کابینہ اجلاس بھی طلب کیے مگر یوں لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف کی شرائط کے ہاتھوں بندھے ہوئے ہیں اور وہ عوام کو کسی طور بھی ریلیف دینے کے قابل نہیں۔ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط میں یہ بات طے کی تھی کہ توانائی کے شعبے میں پیدا ہونے والے گردشی قرضے کو ختم کرنا اور بجلی گیس کو اس کی اصل لاگت پر فروخت کرنا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والی تقریبا 30 فیصد بجلی کی قیمت حکومت کو موصول نہیں ہوتی۔ 20 فیصد تک بجلی ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن میں ضائع یا چوری ہوجاتی ہے، جبکہ 10 فیصد صارفین بجلی کے بل ادا نہیں کرتے، جس سے حکومت کو خسارہ ہوتا ہے اور بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑتے ہیں۔بجلی کے بلوں میں اضافے کی متعدد وجوہ شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی ہے۔ کیونکہ بجلی کی پیداوار کیلیے زیادہ تر ایندھن درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئی پی پیز سے معاہدے میں ڈالر ریٹ شامل ہیں۔ روپے کی قدر کے علاوہ پالیسی ریٹ میں اضافہ بھی اہم ہے۔ جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی 22 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ ان دونوں وجوہ کی بنیاد پر ملک میں افراط زر یا مہنگائی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت کوئی مالیاتی گنجائش موجود نہیں کہ عوام کو رعایت یا سبسڈی فراہم کرسکے۔ اس لیے حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کی ہے۔
وہ صارفین جو لائف لائن صارف نہیں کہلاتے، انہیں بجلی کے بیس ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرچارج کا بھی سامنا ہے۔ ایک سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کا ٹیرف 13.48 روپے تھا جس میں بیس ٹیرف میں تین روپے اور سرچارج میں 4.22 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں ایک یونٹ 20.70 پیسے میں پڑ رہا ہے، یعنی یکمشت 7.22 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح اگر 100 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں تو آپ کا بل 1348 روپے آتا تھا وہ بڑھ کر اب 2070 روپے ہوگیا۔ یعنی بجلی کے حقیقی بل میں 722 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
اسی طرح اگر ایک متوسط طبقے کا گھر جہاں 400 یونٹ بجلی استعمال کی جاتی ہے، اس کے بیس ٹیرف جو کہ 25.53 پیسے تھا، اس بیس ٹیرف میں 6.5 روپے اور سرچارج میں 6.23 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس طرح فی یونٹ بل میں یکمشت 12.73 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ اور فی یونٹ بجلی کا بل 38.26 روپے ہوگیا۔ اسی طرح پیک آور ریٹ 48.12 روپے اور آف پیک ریٹ 41.8 روپے ہوگیا ہے۔ صارفین کو بیس ریٹ کے علاوہ فیول چارجز ایڈجسمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسمنٹ کی بھی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ نیپرا قوانین کے مطابق اگر بجلی کی پیداوار میں ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن سے کم ہو تو یہ رقم واپس کی جاتی ہے۔ اور اگر ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن کی لاگت سے زائد ہو تو اسے صارف سے وصول کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کے الیکٹرک کے صارفین کو سات ماہ تک منفی فیول چارجز ایڈجسمنٹ جبکہ دیگر ڈیسکوز کے صارفین کو تین ماہ تک منفی فیول چارج ایڈجسمنٹ موصول ہوئی۔ یعنی ڈیسکوز اور کے الیکٹرک نے صارفین سے ایندھن کی مد میں رقم وصول کرنے کے بجائے واپس کی۔تشدد کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جاسکتی، مگر کیا نگران حکومت بجلی کے بلوں پر عوام کو کوئی ریلیف دے پائے گی؟ مگر اس کا جواب نفی میں لگتا ہے۔ کابینہ نے اپنے اجلاس میں بجلی کے بلوں میں کمی کے حوالے سے جو بھی بات چیت کی، اس کا لب لباب یہ ہے کہ کمی اس طرح کی جائے کہ اس سے قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے، یعنی کوئی سبسڈی دے نہیں سکتے، موجودہ حکومت کو اس حوالے سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور عوام کو ریلیف دلوانے کیلیے رعایت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر احتجاج نگراں حکومت کیلیے الیکشن سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔