سلطان(پاور)کے سامنے مطالبہ عدل و انصاف !!!

0
37

مشہورِ زمانہ سیاسی اکٹوسٹ اور مفکر، نوم چامسکی (Noam Chomsky ) اپنی کتاب Understanding Power میں لکھتے ہیں۔ یہ ایک کلاسک تکنیک ہے کہ جب آپ کسی حکومت کو اوورتھرو کرنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ اس کی فوج کو اپنے ہتھیاروں سے مسلح کر تے ہیں۔ یہ اسٹینڈرڈ پروسیجر ہے، اس لئے کہ اگر آپ ایک حکومت کو گرانا چاہتے ہیں، تو آپ کے لئے اس کو کون اوورتھرو کرے گا؟ ویل، فوجیں ہی ہوتی ہیں جو حکومتوں کو گرا سکتی ہے۔ در حقیقت، یہ وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر پہلے دنیا بھر میں فوجی معاونت اور تربیت دی جاتی ہے، تاکہ ہمارے اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے ہوں جو پھر مقامی فوج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر آپ ڈی کلاسیفائیڈ شدہ امریکی خفیہ دستاویزات پڑھیں، تو یہ سب بڑا کھل کر سامنے آچکا ہے۔ مثال کے طور پر، 1965 میں روبرٹ مکنمارا [دفاع کے وزیر] سے مکجورج بنڈی [صدر کے ملکی امن کے لئے خصوصی معاون] کے درمیان ایک رابطہ کی تفصیل دی گئی ہے، جس میں لاطینی امریکا کے بارے میں فوج کے ذریعے حکومتیں گرانے پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ یہ طویل اقتباس مجھے اس لئے یاد آگیا کیونکہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے ہزاروں افراد، آج وائیٹ ہاس کے سامنے جمع ہو کر بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی پر شدید احتجاج کر رہے تھے۔ انڈر سیکرٹری ڈانلڈ لو کے اس پیغام کا چرچا تھا، جس میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ پاکستانی حکومت کو اوورتھرو کردیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے اس حکم پرعمل تو ہوگیا لیکن پاکستان کی معیشت اور داخلی سیاست ڈوب گئی۔ آج مظاہرین میں جوش و خروش کے ساتھ ساتھ غصے کا عنصر بھی موجود تھا۔ کچھ لوگوں سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود امریکی سفیر، الیکشن کمیشن کے چیئرمین سے تو ملاقاتیں کر رہا ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ نہیں کہا جا رہا۔ اب مظاہرین کے ان دعووں میں کتنی صداقت ہے، یہ تو آجکل کی خفیہ دستاویزات کے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن لگتا یہی ہے کہ پاکستانی امیریکیوں کی اتنی بڑی تعداد کو مطمئن کرنے کیلئے، بائیڈن حکومت کو کوئی نہ کوئی فوری اقدام تو لینا پڑے گا۔
کچھ مظاہرین نے اپنے پلے کارڈز پر مشی گن، پینسلوانیا اور چند دیگر ریاستوں کے پچھلے صدارتی انتخابات کے نتائج بھی لکھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان اسٹیٹس میں بائیڈن کی فتح کا مارجن بہت کم تھا اور اگر امریکہ میں موجود ایک ملین پاکستانیوں نے اپنا ووٹ ڈیمو کریٹس کے خلاف استعمال کیا ہوتا تو انتخابات کا پانسا پلٹ سکتا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ صدراتی الیکشنز میں پاکستانی امریکنز کی بہت بڑی تعداد نے صدر بائیڈن کو ووٹ دیا تھا۔
منتظمینِ مظاہرہ، سارے شرکا سے ایک پیٹیشن پر بھی دستخط لے رہے تھے جو آخر میں وائیٹ ہاس کے اسٹاف کے حوالے کی گئی۔ اس پٹیشن میں انہوں نے اپنے مطالبات بڑے واضح انداز میں درج کئے ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس وقت ہزاروں لوگ سیاسی اختلافِ رائے رکھنے کی وجہ سے پابندِ سلاسل ہیں۔ ان میں کافی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی شامل ہے۔ انتخابات کے انعقاد کی بھی کوئی تاریخ نہیں دی جارہی۔ صحافت پر پابندی اور جبری گمشدہ افراد کا معاملہ بھی لوگوں کی بے چینی کے اسباب میں شامل ہے۔
اس مظاہرے میں لوگ نعرے لگا رہے تھے اور میں سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ لیفئیٹ اسکوائر کے اس پارک میں ہم کشمیر، فلسطین، بوسنیا اور دیگر علاقوں کے لوگوں کے بنیادی حقوق کیلئے تو کئی دفعہ جمع ہو کر مظاہرے کرتے رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ آج ہمیں اپنے پیارے ملک پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کیلئے بھی یہ ریلی نکالنا پڑ رہی ہے۔ کئی مظاہرین نے چہرے ماسک کے ذریعے چھپائے ہوئے تھے۔ پتہ چلا کہ احتیاط کر رہے ہیں کہ کہیں امریکہ کی پسندیدہ مافیا ان کے پاکستان میں رہنے والے عزیزوں کو ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنائے۔ جابر اور ظالم حاکمِ وقت سے عدل وانصاف کا مطالبہ کرنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا۔
ہمارے آج کے سفر کے ساتھی سید انعام الحق تھے جو میرے انجینئرنگ یونیورسٹی کے زمانے کے گہرے دوست بھی ہیں اور یہاں نیوجرسی میں پڑوسی بھی۔ مجاہد اعجاز صاحب نے انعام بھائی کی نئی نویلی ٹیسلا کار ڈرائیو کی تاکہ ہمارا سفر خوشگوار رہے۔ ہم مظاہرے کے فورا بعد ایک قریبی پاکستانی ریسٹورنٹ دیس پردیس روانہ ہوئے تو انعام بھائی کی یہ خواہش کہ مظاہرے کے آخری مقرر شہباز گِل کی پوری تقریر سن لی جائے، دھری کی دھری رہ گئی۔ مجاہد اور میری کمزوری، دیس پردیس کی لذیذ توا کڑھائی زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتی تھی، اس لئے فوری طور وہاں ریسٹورانٹ پہنچے۔ ابھی ہم نے اپنی پسندیدہ ڈش سے دو دو ہاتھ کئے ہی تھے کہ پتہ چلا کہن منتظمینِ مظاہرہ بھی یہیں دیس پردیس پہنچ رہے ہیں۔ بہرحال اس طرح انعام بھائی کی ملاقات شہباز گِل صاحب سے ہو گئی اور وہ دونوں خوش ہو گئے۔ اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ جب ساتھی خوش ہو جائیں تو پھر پورا زمانہ ہی بہت اچھا لگنا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم بھی خوشی سے سرشار، شورش کاشمیری مرحوم کی یہ نظم گنگناتے ہوئے، رات گئے گھر پہنچ گئے۔
پرچم سر میدان وغا کھول رہا ہے
منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے
کیا سیل بغاوت ہے مریدوں کی صفوں میں
پیران تہی دست کا دل ڈول رہا ہے
اے وائے صبا عقرب جرارہ چمن میں
صرصر کے اشارات پہ بس گھول رہا ہے
افرنگ کے دیرینہ غلاموں کی رضا پر
خود پیر حرم بند قبا کھول رہا ہے
کچھ بات ہی ایسی ہے کہ پیمان زر میں
اک رند تنک ظرف لہو تول رہا ہے
بزغال افرنگ شغالوں کے جلو میں
کس ٹھاٹھ سے ضرغام صفت بول رہا ہے
تاریخ کے ویران آباد میں شورش
کچھ قیمتی موتی ہیں قلم رول رہا ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here