عالمی مالیاتی فنڈ ٹیکس نظام کو بہتر بنانے، حکومتی اخراجات کم کرنے، منی لانڈرنگ اور مالیاتی ٹرانزیکشن کے نظام میں موجود خرابیاں دور کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کے متعلق اپنے تحفظات پاکستانی حکام کے سامنے رکھ رہا ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے ترقیاتی پروگرام کو ناقابل برداشت قرار دے کر اس کا از سر نو جائزہ لینے کا کہا ہے۔ان دنوں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بیل آوٹ فنڈز کی اگلی قسط کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی کی مجموعی لاگت 10.7کھرب روپے ہے جو گزشتہ مالی سال کے بجٹ 727 ارب روپے سے چودہ گنا زیادہ ہے۔عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سالانہ پی ایس ڈی پی کا بجٹ وہی رہا اور کوئی نیا منصوبہ شامل نہ کیا گیا تو موجودہ منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل ہونے میں چودہ سال لگیں گے۔آئی ایم ایف کو شکایت ہے کہ پاکستان قرضوں اور خسارے کی حد اخراجات پر قابو پانے میں ناکام رہا جبکہ قرض کی حد میں برسوں سے مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ رواں برس کے آغاز میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے سرکاری سرمایہ کاری کے شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے تکنیکی مدد کی درخواست کی تھی۔ جس پر آئی ایم ایف کے مالیاتی امور کے محکمے اور ورلڈ بینک کی ایک ٹیم نے 14 مارچ سے 28 مارچ 2023 کے دوران مشترکہ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (PIMA) اور موسمیاتی PIMA (Climate-PIMA) کے منصوبوں کا جائزہ لیا۔ آئی ایم ایف نے جائزہ رپورٹ کا مسودہ گزشتہ ماہ وزارت خزانہ کے ساتھ بانٹا تھا۔رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے لیے حکومت نے 727 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا تھا لیکن دستاویزات کے مطابق 15 مئی تک صرف 384 ارب روپے یا سالانہ بجٹ کا 53 فیصد خرچ کیا جا سکا۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگرچہ پلاننگ کمیشن جاری منصوبوں کی فنڈنگ کو ترجیح دیتا ہے تاہم جاری منصوبوں کی تکمیل کی کل لاگت مالی سال کے وسط میں دستیاب حقیقت پسندانہ فنڈنگ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق فنڈنگ کی موجودہ سطح پر نئے اور جاری منصوبوں کو مکمل ہونے میں تقریبا 14 سال درکار ہوں گے۔ دوم یہ کہ نئے منصوبے نمایاں شرح سے شامل ہوتے رہتے ہیں۔آئی ایم ایف وفد پاکستان کے ترقیاتی فریم ورک کا جائزہ لینے کے لیے پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسسمنٹ (PIMA) کے عنوان سے ایک تکنیکی معاونت کی رپورٹ لے کر آیا ہے۔آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2022-23 کے دوران 2,261.9 ارب روپے کی تخمینہ جاتی لاگت کے ساتھ PSDP میں 244 نئے ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔ جاری ترقیاتی منصوبوں کی تعداد 909 تھی جن کی کل لاگت 7,961.5 ارب روپے تھی۔اس لیے کسی منصوبے کی تکمیل کا اوسط وقت 14.1 سال رہا، بشرطیکہ ترقیاتی بجٹ یکساں رہے اور کوئی بھی منصوبہ PSDP میں شامل نہ ہو۔پلاننگ کمیشن کا تخمینہ ہے کہ ایک عام پروجیکٹ کے لیے اس کا اصل تخمینہ لاگت سے 2سے3 گنا مہنگائی، پہلے سے کیے گئے کام کو پہنچنے والے نقصان اور غیر فعال عمارتوں کی جگہوں پر سامان کے نقصان، اور بلڈر کی بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے ضرورت ہوتی ہے۔ پلاننگ کمیشن بڑی حد تک اس تاخیر کا سبب فنڈنگ میں تاخیر کو قرار دیتا ہے۔اگرچہ PSDP منصوبے کی کل لاگت کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے لیکن اگر وسط مدتمیں دستیاب حقیقت پسندانہ فنڈنگ سے موازنہ کیا جائے تو یہ معلومات زیادہ کارآمد ثابت ہوں گی۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہائبرڈ پبلک انویسٹمنٹ ایفیشنسی گیپ کا تخمینہ لگ بھگ 38 فیصد ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے انفراسٹرکچر تک رسائی اور معیار کو بہتر بنانے کی کافی صلاحیت موجود ہے۔ ہائبرڈ کارکردگی کا فرق ممکنہ معیار اور بنیادی ڈھانچے تک رسائی کا ایک پیمانہ ہے جس میں فی کس کیپٹل اسٹاک کی موجودہ سطح ہے۔ پاکستان کی کارکردگی کا فرق اس جیسے ممالک کے گروپ میں اوسط سے تھوڑا زیادہ ہے لیکن ابھرتی ہوئی معیشتوں، مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور تمام ممالک کے گروپوں کی اوسط سے زیادہ ہے۔ یہ فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی آبادی کے لیے عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی بہترین رسائی اور معیار فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے اخراجات کو مکمل طور پر استعمال نہیں کر رہا ہے۔ان منصوبوں پر توجہ دیں جو ذیلی منصوبوں کے ذریعے قومی شرح نمو میں اضافہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پی ایس ڈی پی جب تک قومی وسائل اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں بنایا جاتا بجٹ خسارے اور ترقی کے اہداف کا حصول مشکل رہے گااس کو یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو ہزار اکیس سے آن لائن سیٹلائٹ امیج سروس، پاکستان سپیس سنٹر کے قیام، گلگت بلتستان میں سپیس ایپلی کیشن سنٹر کا قیام ،پاکستان سپیس پورٹ کا قیام، پاکستان سیٹلائٹ نیوی گیشن پروگرام، پاکستان ملٹی مشن کمیونیکیشن سیٹلائٹ سسٹم اور ایڈوانس سسٹمز آف پاک سیٹ جیسے منصوبے تکمیل کے منتظر ہیں لیکن حکومتیں ایسے ترقیاتی منصوبوں میں دلچسپی لیتی ہیں جو انہیں سیاسی فائدہ عطا کریں۔ آئی ایم ایف ہمیں بجٹ کے مسائل دور کرنے میں مدد دے رہا ہے۔یہ مدد اسی وقت کارآمد ہو سکتی ہے جب حکومت اور افسر شاہی اپنے اخراجات میں کفایت شعاری لائیں۔ترقیاتی منصوبوں کے متعلق ترجیحات کا تعین کریں۔۔
٭٭٭