کون بنے گا وزیراعظم ؟ پاکستان بھر میں یہ چہ میگوئیاں زبان زد عام ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کوئی اتحادی حکومت بنا سکے گی یا زبانی جمع خرچ اور فوٹو سیشن کے بعد مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا رہیگا ، اور اگر کوئی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہو بھی گیا تو کتنے دِن اُس بیچارے کی نوکری محفوظ رہیگی، کسی دِن بھی اُسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ گھر جاسکتے ہیں، اپنے پڑوسی ملک بھارت میں اِس طرح کی وارداتیں کئی مرتبہ ہوچکی ہیں، حکومت بنی ، امریکا کیلئے ملک کا ایک نیا سفیر بھیج دیا گیا ، لیکن اِس سے قبل کہ نئے سفیر صدر امریکا کو اپنا سفارت نامہ پیش کرتے کہ دوسری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا،دوسرے نئے سفیر امریکا آئے ، لیکن اُنہوں نے ایک نیک کام یہ کیا کہ وہ اپنی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے پر ایک بڑا سا تالہ لگوادیا تاکہ کوئی پھر اندر نہ آسکے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اِسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کے عہدے کیلئے انٹرویو لینا شروع کردی ہے تاکہ چکر لگانے والے دروازے سے کوئی آئے اور پھر واپس جانے میں کوئی دشواری نہ ہو، اِسٹیبلشمنٹ کے چیف سیکرٹری نے جب ایک معزز شخص کو انٹرویو کیلئے بلایا تو وہ بن سنور کر حتی کہ اپنے لبوں پر لِپ اسٹک کی پالش کرکے نمودار ہوئے ، مضافحہ کے بعد ہی اُنہوںنے چیف سیکرٹری کو اپنے بانہوں میں اِس طرح دبوچ لیاکہ اُن کے معاونین دیکھتے ہی رہ گئے ، حتی کہ پولیس کو کال کرنے کے بارے میں سوچنے لگے بہرکیف جب باقاعدہ طور پر انٹرویو شروع ہوئی تو اُنہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوے بتایا کہ وہ نیویارک میں ٹیکسی چلاتے ہیں ، اور اِس حقیقت پر کہ پاکستان میں وزیراعظم کی پوسٹ کو پُر کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ وہ اِس عہدے کیلئے ایک انتہائی موزوں شخص ہیں، چیف سیکرٹری نے انتہائی غور وخوض کے بعد اُن سے سوال کیا کہ اُن کے پاس کون سی صلاحیت موجود ہے کہ اُنہیں وزیراعظم کے عہدے کیلئے منتخب کیا جائے؟ انٹرویو کیلئے آنے والے شخص نے جواب دیا کہ” کیونکہ وہ ایک خواجہ سرا ہیں.امریکا میں اُن کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہیں حتیٰ کہ صدر امریکا جو بائیڈن بھی اُنہیں کال کر کے بلاتے رہتے ہیں ” چیف سیکرٹری نے پھر پوچھا کہ ” جب آپ جو بائیڈن سے ملاقات کرتے ہیں تو آپ کی گفتگو کا دائرہ کس نوعیت کا ہوتا ہے” ،” ذاتی نوعیت کا عشق و محبت کا بائیڈن مجھے کہتا ہے کہ وہ بھی ٹرانسجینڈر ہے ، لیکن اِس کا اظہار وہ کھلے عام نہیں کرسکتا. وہ کہتا ہے کہ پاکستان میں ٹرانسجینڈروں کے ساتھ انصاف نہیں روا رکھا جاتا ، اِسلئے اگر اُسے وہاں کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو سارے دنیا میں پاکستان کی شہرت میں بے انتہا اضافہ ہو جائیگا. بچہ بچہ یہ کہنے لگے گا کہ پاکستان خواجہ سراؤں کا وطن”انٹرویو کیلئے آنے والے شخص نے جواب دیا،” دیکھئے محترم ! ہمیں وزیراعظم کے عہدے کو شو کیس نہیں بنانا ہے، ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جس نے انتہائی بڑی کارپوریشن میں سی ای او کے عہدے پر کام کرچکا ہو یا حکومت کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکا ہو اور جو با آسانی وزیراعظم کے فرائض کی انجام دہی کر سکے” چیف سیکرٹری نے کہا” سر ! آپ کی باتیں بھی محض قیاسی ہیں جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، آپ کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے پاس کون سی بڑی کارپوریشن کا تجربہ ہے،وہ تو صرف بلوچستان کی حکومت کے ترجمان تھے، وہ تو یونیورسٹی آف لندن سے لاء کی ڈگری بھی نہیں لے سکے تھے اور خالی ہاتھ پاکستان واپس آگئے تھے،اور پھر پنجاب کی متوقع وزیراعلیٰ مریم نواز کونسی حکومت کے اعلیٰ عہدے پر کام کرچکی ہیں یا کونسی بڑی کارپوریشن کی سی ای او تھیں؟ ” انٹرویو دینے والے شخص نے غصے میں جواب دیا”ہم سمجھتے ہیں کہ خواجہ سرا اور وزیراعظم بیک وقت ہونا ایک بڑی بات ہوگی، اِسلئے ہم آپ کی درخواست پر سنجیدگی سے غور کرینگے.چیف سیکرٹری نے اُسے مطمئن کردیا،وزیراعظم کے دوسرے امیدوار پاکستان سے تعلق رکھنے والے اُردو کے ایک پروفیسر تھے، اُنہوں نے وزیراعظم بننے کے بارے میں اپنی صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوے فرمایا کہ اُن کے آباؤاجداد نے صدیوں صدیوں سے اُردو زبان کی خدمت کی ہے، اُن کا شجرہ نسب مرزا غالب سے ملتا ہے ، اور اُن کے دادا پر دادا بھی انگریزوں سے وظیفہ وصول کیا کرتے تھے، اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے پسماندہ علاقے کے لوگوں کو اُردو زبان پر مہارت کردی جائے تو اپنا ملک خود بخود ترقی کرنا شروع کردے گا، اُنہوں نے کہا کہ لاہور سے لے کر کراچی کے شہر تک اُن لوگوں کی کامیابی پر نظرثانی کیجئے جو ترقی یافتہ ہیں، اُن سبھوں کو اُردو زبان پر زبردست عبور حاصل ہے، وہ سب کے سب اپنے خیالات ، اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی میٹھی زبان اُردو میں کرتے ہیں، حتی کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اُردو کے شاعر بننے پر مجبور ہوگئے ہیں،اُنہوں نے کہا کہ اگر وہ وزیراعظم بنے تو ہر 17 گریڈ اور اُس کے بالائی افسر کیلئے یہ شرط لگادینگے کہ وہ اُردو کا شاعر بھی ہو.چیف سیکرٹری نے جب اُن سے سوال کیا کہ اُردو زبان کی ترقی سے ملک کی معیشت کس طرح ترقی کرے گی؟ تو اُدرو کے پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ ” ترقی کرے گی، لوگوں کے اخراجات میں کمی آجائیگی، ہر شاعر تنگ دستی کے باعث دِن بھر میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتا ہے ، یہی طریقہ کار ہر پاکستانی کیلئے لازما “قرار دے دی جائیگی ” جیف سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ” ہم نہیں چاہتے کہ کوئی دِن بھر میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھائے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ پانچ مرتبہ کھائے”