قومی اسمبلی
اجلاس کا چیلنج !!!
پاکستان میں الیکشن سے قبل سب سے بڑا چیلنج انتخابات کا انعقاد تھا کیونکہ ہر طرف الیکشن ملتوی ہونے کی افواہیں تھی ، اب جب الیکشن کا انعقاد ہو چکا ہے اور تمام قیاس آرائیوں کے بعد حکومت بھی بننے کے مراحل میں ہے تو اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا نئے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے کیونکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خواتین کی مخصوص نشستیں مکمل ہونے تک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے انکار کر دیا ہے ، صدر مملکت عارف علوی کا موقف ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو اس کے حصے کی مخصوص نشستیں دی جائیں جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری کو بنا منظور کیے واپس بھیجنے کے بعد سے ایک نئی آئینی بحث چھڑ گئی ہے۔پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا پر یہی بحث جاری ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کرتے تو آگے کیا ہو گا اور کیا سپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق یہ اجلاس طلب کرنے کے مجاز ہیں؟خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب صدر عارف علوی کسی سمری کی منظوری میں رکاوٹ بنے ہوں اس سے قبل، سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں اختتام کے بعد جب پی ڈی ایم اقتدار میں آئی تو صدر عارف علوی نے متعدد موقعوں پر حکومت کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات کی توثیق نہیں کی تھی۔مثال کے طور پر جب پی ڈی ایم حکومت نے نئے گورنر پنجاب بنانے کی تجویز صدر کو بھجوائی تھی یا جب آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل کو صدر کے پاس بھیجوایا گیا تھا۔صدر کی جانب سے اس پیش رفت کے بعد نگراں وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری صدر مملکت کو بھجوائیں گے اور اگر ایوان صدر سے دوبارہ ایسا ہی ردعمل آتا ہے تو پھر آئین کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔ ان انتخابات میں متعدد ایسے مواقع آئے کہ جو اپنی نوعیت کے ایسے واقعات تھے کہ جن سے اس سے قبل الیکشن کمیشن کو واسطہ نہیں پڑا۔صدر مملکت کا اختیار ہے کہ وہ اجلاس طلب کریں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر آئین خاموش ہے اور سپیکر کو بھی کہیں اس طرح کا اجلاس طلب کرنے کی اجازت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ پہلے مخصوص نشستوں سے متعلق ایسا تنازع بھی کھبی پیدا نہیں ہوا جو اس دفعہ سامنے آیا ہے۔ یوں یہ صدر مملکت کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا اعتراض ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی کی کمپوزیشن ہی مکمل نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین قومی اسمبلی اس وقت سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں ، تحریک انصاف کے سیانے مگر بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف نے ”فی الوقت” خو د کو سنی اتحاد کونسل میں تقریباََ مدغم اس لئے کیا ہے کیونکہ یہ ”اتحاد” الیکشن کمیشن کے ہاں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو اجتماعی طورپر جو ووٹ ملے ہیں وہ اب سنی اتحاد کونسل کے کھاتے میں شمار ہوں گے۔پی ٹی آئی کے اراکین کا سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے شامل ہونے کا مقصد خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص کردہ زیادہ سے زیادہ نشستوں کو حاصل کرنا ہے ، مذکور ہ ترکیب کی بدولت سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف آئندہ قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت بن جائے گی جس کی نشستوں پر کم از کم 130خواتین وحضرات براجمان ہوں گے۔ یہ بھاری بھر کم تعداد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو بے ثباتی کے خوف سے مفلوج ر کھے گی۔تحریک انصاف کے سیانے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں اتفاق کو بھی دیرپا تصور نہیں کرتے۔فرض کیا بے تحاشہ مجبوریوں کی وجہ سے ان کا اتحاد کچھ دیر برقرار رہا تب بھی ایم کیو ایم کی سیمابی طبیعت حکومتی اتحاد سے کسی وقت بھی الگ ہوسکتی ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت اسے ممکنہ علیحدگی کے جواز فراہم کرے گی۔ ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی تو سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئی تحریک انصاف آ ئندہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی گیم لگاسکتی ہے۔ اگر یہ گیم تیار ہوگئی تو مولانا فضل الرحمن بھی اس میں شامل ہونے کو آمادہ ہوسکتے ہیں اور یوں جب چاہے آئندہ حکومت کا تختہ بآسانی ”آئینی طریقے” سے الٹا جاسکتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے سنی اتحاد کونسل میں ادغام کے بعد قومی اسمبلی میں اس کا پارلیمانی لیڈر کون ہوگا۔صاحبزادہ حامد رضا یا تحریک انصاف کی صفوں سے نامزد ہوا کوئی شخص۔ تحریک انصاف عمر ایوب خان کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کرچکی ہے۔وہ ا گر وزیر اعظم کے منصب کے لئے منتخب ہوپائے تو آئندہ قومی اسمبلی میں انہیں قائد حزب اختلاف کا منصب سنبھالنا چاہئے۔اب دیکھنا ہے کہ قومی اسمبلی اجلاس کے بعد سیاسی جماعتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
٭٭٭