مقتدرہ ہوش کے ناخن لے!!!

0
13
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں شہباز شریف کے وزیراعظم اور زرداری کو صدر بنائے جانے کے پیپلزپارٹی و ن لیگ کے درمیان معاہدے کی خبر پر سوال اُٹھاتے ہوئے اظہار کیا تھا کہ اغراض پر مبنی یہ اتحاد کب تک برقرار رہ سکے گا اور کیا فیصلہ ساز زرداری کو بطور صدر قبول کر لینگے۔ بہر حال بلی تھیلے سے باہر آگئی اور یہ عقدہ بھی کُھل گیا کہ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور مقتدرہ کی لے پالک جماعتوں کی رات بارہ بجے پریس کانفرنس ان جماعتوں کو ڈنڈے کے زور اور اقتدار سے محروم کئے جانے کی دھمکی پر بہ حالت مجبوری کی گئی۔ پیپلزپارٹی نے نہایت چالاکی سے اپنا کھیل کھیلا اور بندر بانٹ کے مرحلے میں آئینی پوزیشنز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ نوازشریف کے نہ چاہتے ہوئے بھی ن لیگ کو انتظامی عہدوں اور وزارتوں کو وفاق میں ذمہ داری لینا پڑی ہے۔ یہ میرا وہ تیرا کی بندر بانٹ میں صدر، چیئرمین سینیٹ، پنجاب اور کے پی میں گورنر اور بلوچستان میں ڈھائی ڈھائی برس کی وزارت اعلیٰ میں پیپلزپارٹی کے حصے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ پنجاب و پختونخواہ میں پی پی پی واش آئوٹ ہو چکی ہے۔ اب دونوں صوبوں میں گورنر ہائوس اور گورنر کی موجودگی ان کیلئے گوشۂ عافیت اور آپنے سیاسی قدم جمانے کی کوشش پیپلزپارٹی کا مقصود ہے، سندھ تو پندرہ برس کی برائیوں اور خراب نظام کے باوجود بلا شرکت غیرے پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اس بندر بانٹ میں نقصان کس کو ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم نے سندھ میں گورنر اور وفاق میں اپنی پسند کی وزارتیں مانگ لی ہیں تو نقصان کس کو ہوتا ہو انظر آتا ہے، بلا شبہ ن لیگ کو کہ وفاق اور پنجاب میں مینڈیٹ کی چوری سے حکومتیں بنانے کے بعد جتنی عوامی، معاشی، انتظامی پریشانیوں کا سامنا ن لیگ کو کرنا ہوگا، سب سے بڑھ کر بڑے میاں صاحب کاچوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چُور ہو گیا ہے۔ خود میاں صاحب تو اس حادثے سے متاثر ہو کر گوشۂ خاموشی میں چلے گئے ہیں۔ البتہ جاوید لطیف کا شکوہ نواز شریف کیساتھ دھوکہ ہوا ہے”۔ ساری حقیقت کو افشاء کر رہا ہے۔ مقتدرہ، آئینی اور عدلیہ کے اداروں کی تمام منصوبہ بندی اور کوششوں کے باوجود انتخابی مراحل میں عوام کا عمران سے جذبۂ محبت اور فیصلہ سامنے آیا ہے اس سے فیصلہ سازوں کو مایوسی اور خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ نواز لیگ کی مقبولیت اور دعوئوں کا بھی بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ پنجاب میں خود کو راجکماری سمجھنے والی مریم وزیراعلیٰ بن تو گئی ہے لیکن کیا عمران سپورٹڈ اپوزیشن کے ہوتے ہوئے اور سیاسی انتظامی اور ترقیاتی ناتجربہ کاری کے سبب صوبے کے معاملات چل سکیں گے۔ ویسے ہمارا اب بھی اندازہ یہی ہے کہ اقتدار کی یہ بیل زیادہ دیر منڈھے نہیں چڑھے گی۔ اسمبلیاں تشکیل تو دے دی گئی ہیں لیکن کیا حقیقتاً یہ اسمبلیاں عوامی مینڈیٹ اور نمائندگی کی مظہر ہیں؟ ہزاروں فارم 45 کی تصدیق و آڈٹ اور ٹریبونلز میں اپیلوں کا معاملہ تو اپنی جگہ،پی ٹی آئی سپورٹڈ نمائندوں کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سبب ریزرورڈ نشستوں کے اعلان ای سی پی کی جانب سے التوا اس امر بلکہ حقیقت کا مظہر ہے کہ اسمبلیوں کی ابھی تکمیل نہیں ہوئی۔صدر عارف علوی نے تو قومی اسمبلی کے انعقاد کی سمری کو یکسراس بناء پر مسترد کر دیا ہے۔ اس ایشو پر اب آئین کے آرٹیکل (2)91 اور الیکشن ایکٹ کے متعلقہ حوالوں سے بحث جاری ہے اور حکومتی و سیاسی برز جمہروں کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا جا رہا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے 21 دن تک صدر مملکت سمری پر دستخط نہ کرے تو سیکرٹری قومی اسمبلی اجلاس کا گزٹ جاری کر سکتا ہے۔ اگر آئین کے مطابق یہ بات صحیح بھی ہے تو ہمارا سوال ہے کہ پارلیمان میں سب سے زیادہ اراکین کی جماعت کے حق یعنی ریزورڈ اراکین کے اعلان اور زیر التواء ٹربیونل و عدالتی اپیلوں کے فیصلے کے بغیر وفاقی پارلیمان کا اجلاس بلانا کہاں کا انصاف ہے، عوامی مینڈیٹ کی حامل سب سے بڑی جماعت کی نفی کر کے بندر بانٹ کے ذریعے بھان متی کے کنبے کو اکثریت رکھنے والی جماعت کے برعکس اقتداری و پارلیمانی اکثریت سے نوازنا عوام و جمہوریت سے نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ایسی پارلیمان ملک، عوام اور بین الاقوامی برادری کیلئے معتبر اور قابل قبول ہو سکتی ہے؟
نا انصافی اور جمہوریت مخالفت کا رویہ یوں تو کئی عشروں سے جاری ہے لیکن عمران و پی ٹی آئی سے بغض و دشمنی کا سلسلہ تمام حدوں کو پار کر چکا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد، قید و بند، سزائوں، انٹراپارٹی کی آڑ لے کر انتخابی نشان سے محرومی اور عوامی مینڈیٹ کی چوری تک کونسا حربہ نہیں آزمایا گیا ہے اور اب اکثریتی حق کو تسلیم نہ کرنا، آخر کس آئین، قانون یا جمہوریت کے زمرے میں آتا ہے اور عالمی افق پر کیسا تاثر دیتا ہے۔ کیا اس طرح ملک میں استحکام کی صورت آسکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جب تک کسی ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو، معاشی استحکام مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے، نہ ہی ملک میں معاشی و کاروباری سرگرمیاں فروغ پا سکتی ہیں، نہ ہی بیرونی دنیا و عالمی اداروں کا اعتبار بنتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیئن بینک ہو یا دیگر مالیاتی عالمی ادارے انہیں اگر اس بات کا یقین نہ ہو کہ متعلقہ ملک میں سیاسی استحکام ہے کبھی بھی نظر کرم نہیں کرتے اور اپنی سخت شرائط، مختلف مطالبات و پابندیوں سے اس ملک کی اشرافیہ و حکومت و ریاست کو جکڑے رہتے ہیں۔
ہماری ریاست ایک جانب تو معاشی استحکام کے منصوبے بنا رہی ہے مگر دوسری جانب سیاسی استحکام کے برعکس عوام کے مینڈیٹ کو رد کرتے ہوئے ڈنڈے کے زور پر، بندر بانٹ کر کے بھان متی کے کنبے کو لانے پر مصر ہے۔ کیا یہ روئیے اور اقدامات وطن عزیز کی خوشحالی، ترقی و استحکام کیلئے مناسب ہیں۔ مقتدرین کو اپنے ایجنڈے پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ پاکستان اور عوام کی بہتری کیلئے عوامی مینڈیٹ کا اعتراف کریں، وطن عزیز کے اصل نمائندوں کو حق نمائندگی دیں۔ یہی پاکستان کے استحکام، خوشحالی اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔ ہمارا محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے یہی مشورہ ہے، وطن ہے تو سب کچھ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here