تیسری عالمی جنگ کاٹوپی ڈرامہ

0
11

رواں برس 2024 کیلئے دنیا بھر سے ماہر نجومیوں نے تیسری عالمی جنگ کی پیشگوئیاں کر رکھی تھیں اگر اسرائیل کی جانب سے ایران کے حملے کے جواب میں کارروائی کی گئی تو عالمی جنگ کی پیشگوئی درست ثابت ہوتی دکھائی دے گی ،لیکن فی الحال یہ سب کچھ ٹوپی ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ، کیونکہ اس وقت ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ، آئی سیون کے ممالک اسرائیل کے حامی ہیں ، امریکہ نے اقوام متحدہ کی ورچوئل میٹنگ کے دوران ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ،ایشیا کے دو بڑے ممالک چین اور روس نے تاحال اس حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے جبکہ پاکستان نے ایران کے حملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔اسرائیل نے یہ تسلیم تو نہیں کیا کہ قونصلیٹ پر حملہ اس نے کیا لیکن عام تاثر یہی ہے کہ اسرائیل ہی اس حملے کے پیچھے ہے۔یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر اپنی سرزمین سے حملہ کیا۔اس سے پہلے ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ کئی سال تک ایک ‘شیڈو وار’ میں آمنے سامنے رہے جس میں وہ ایک دوسرے کے اثاثوں پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ان حملوں کی تعداد میں غزہ میں حالیہ جنگ کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔یہ پڑھ کر آپ کو حیرانی ہو گی کہ اسرائیل اور ایران سنہ 1979 سے پہلے تک اتحادی تھے تاہم ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے کیونکہ اسرائیل کی مخالفت ایرانی حکومت کے بیانیے کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا خاتمہ چاہتا ہے۔ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو اس سے قبل ‘کینسر کی رسولی’ سے تشبیہ دی تھی جس کا ‘بلاشبہ خاتمہ بھی کیا جائے گا اور یہ تباہ بھی ہو گا۔اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایران اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے اور یہ بات ایران کے بیانیے سے بھی عیاں ہے۔اس کے علاوہ ایران کی جانب سے پراکسی گروہ بھی بنائے گئے ہیں جو اسرائیل کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایران فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس اور لبنانی عسکریت پسند گروہ حزب اللہ کی فنڈنگ کرتا ہے۔اس کے علاوہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں ہے لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ سنیچر کی رات اسرائیل پر حملہ یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر کیے گئے فضائی حملے کا جواب ہے، جس میں ایران کے سینئر کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔ایران نے اسرائیل کو اس فضائی حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جسے ایران اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اسرائیل نے ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔اس حملے میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب (آئی جی آر سی) کی بیرون ملک شاخ قدس فورس کے ایک سینیئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ وہ ایران کی جانب سے لبنان کے شیعہ گروہ حزب اللہ کو مسلح کرنے والے آپریشن میں ایک اہم کردار کے حامل تھے۔دمشق میں قونصل خانے پر حملہ ایرانی اہداف کے خلاف کیے گئے ان دیگر فضائی حملوں سے مماثلت رکھتا ہے جس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ حالیہ مہینوں میں شام میں کیے گئے فضائی حملوں میں پاسدارانِ انقلاب کے کئی سینیئر کمانڈر ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل کا الزام ہے کہ پاسدارانِ انقلاب شام کے راستے حزب اللہ کو ہتھیاروں اور ساز و سامان فراہم کرتے ہیں، جن میں میزائل بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ان ترسیلات کو روکنے کے ساتھ ساتھ شام میں ایران کی فوجی پوزیشن کو مضبوط کرنے سے روکنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ایران نے امریکی اور اسرائیلی مفادات کو چیلنج کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں اور پراکسی قوتوں کا ایک نیٹ ورک بنایا۔شام ایران کا سب سے اہم اتحادی ہے۔ ایران نے روس کے ساتھ مل کر بشار الاسد کی شامی حکومت کی دہائیوں سے جاری خانہ جنگی سے نکلنے میں مدد کی ہے۔ایران کی پشت پناہی کرنے والے مسلح گروپوں میں حزب اللہ لبنان میں سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ کر رہا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف دسیوں ہزار شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ایران عراق میں کئی شیعہ ملیشیا کی حمایت کرتا ہے جنھوں نے عراق، شام اور اردن میں امریکی اڈوں پر راکٹ فائر کیے ہیں۔ امریکہ نے اردن میں ایک فوجی چوکی پر اپنے تین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جوابی کارروائی کی تھی۔یمن میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا ہے جو ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ غزہ میں حماس کی حمایت ظاہر کرنے کے لیے حوثیوں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون فائر کیے ہیں اور یمن کے ساحلوں کے قریب سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر بھی حملہ کیا، جس سے کم از کم ایک جہاز ڈوب گیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے جواب میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران حماس سمیت فلسطینی مسلح گروپس کو بھی ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا ہے جنھوں نے گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔اسرائیل پر یہ حملہ غزہ میں جنگ چھڑنے کا سبب بنا جس سے ایران، اس کی پراکسیز اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی اتحادیوں کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی تاہم ایران سات اکتوبر کو ہونے والے حملے میں اپنے کسی بھی کردار سے انکار کرتا ہے، اب دیکھنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان محاذ آرائی کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here