فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
20

محترم قارئین! قرآن مجید فرقان حمید اللہ تعالیٰ کی آخری اور لاریب و بے عیب کتاب ہے۔ تمام کتب سماویہ میں بلند مقام رکھتی ہے۔ جس طرح انبیاء و رسول علیھم الصلواة والسلام کے امام ومقتداء حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجبتیٰۖ ہیں اسی طرح تمام کتابوں کی امام کتاب قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال سے اس عظیم الشان کتاب کی عظمت کا پرچم خوب بلندیوں پر لہرا رہا ہے۔ یہ کتاب ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ شفاء ہے معجز ہے اس کی بے شمار صفات ہیں۔ قرآن کریم کے معجز ہونے کی ایک وجہ ایجاز ہے۔ اور ایجاز کا مفہوم علماء ربانین نے یہ بیان کیا ہے” الفاظ کی تعداد بہت کم ہو۔ اس کے باوجود اس کے دامن میں لطائف وحکم کے جو سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہوں، وہ بے کراں ہوں۔” یعنی چند الفاظ میں کثیر التعداد معانی کو پرودیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر اس آیت قرآنی کا مطالعہ فرمایئے۔ ”وَلْکُم فی القصَاص حَیٰوة” اس آیت کریمہ میں صرف تین لفظ ہیں لیکن یہاں اس میں جو معافی ومعارف بیان کئے گئے ہیں ان کی کوئی انتہا نہیں۔ ان دوکلمات میں قاتل کی سزا بھی بیان کردی اور اس میں جو حکمتیں مضمر ہو ان کو بھی واضح انداز سے بیان کر دیاگیا۔ آیت کریمہ میں قانون قصاص کی ملت اور حکمت بیان کی جارہی ہے۔ یعنیٰ اگر بے گناہ قتل کرنے والے کو اس کے جرم کے برابر قوری سزا نہیں دی جائے گی۔ تو اس کا حوصلہ بڑھے گا اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل وغارت کا بازار گرم کردیں گے۔ لیکن اگر قاتل کو اس کے جرم کے بدلے قتل کر دیا گیا تو دوسرے مجرم بھی اپنا بھیانک انجام دیکھ کر باز آجائیں گے۔ اس طرح ایک قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے سے بے شمار بے گناہ جانیں قتل وغارت سے بچ جائیں گی۔ آج بعض ممالک میں بے گناہ قتل کی سزا منسوخ کردی گئی ہے یہ کہتے ہوئے کہ یہ سزا ظالمانہ اور بیہمانہ ہے۔ مقتول تو قتل ہوچکا۔ اس عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دار پر لٹکا دینا ہے رحمی نہیں تو اور کیا ہے؟ جناب! آپ خوفناک حقائق کو دلکش عبادتوں سے حسین بنا سکتے ہیں۔ لیکن نہ آپ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ آپ کے برے نتائج کو روپذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم قاتل کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پرنم ہوجائیں۔ اس ملک میں مظلوم و بے کس کا خدا ہی حافظ ہے۔ وہ معاشرہ اپنی گود میں ایس مجرموں کو نازونعم سے پال رہا ہے۔ جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسخ کرکے رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے جو ہر قیمت پر عدل وانصاف کا ترازو برابر رکھنے کا علمبردار ہے۔ اس سے اسی بے جا بلکہ نازیبا ناز برداری کی توقع عبث ہے۔ اس مفہوم کو بیان کرنے کے لئے بلغاء بڑی کوشش کی ہے۔ لیکن قرآن کریم کے ایک جملہ میں جو وسعت اور جامعیت ہے وہ اس کی گردراہ کو بھی نہیں پہنچ سکے۔ کلام الٰہی کے اس ایجاز کو دیکھ کر بڑے بڑے خطباء اور شعراء دم بخود ہوجایا کرتے ھتے۔ ادب ولغت کے امام ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نے ایک شخص کو یہ آیت پڑھتے سنا” سو آپ اعلان کردیجئے اس کا جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ وہ اس کی فصاحت وبلاغت سے یوں متاثر ہوا کہ غیرارادی طور پر سربسجود ہوگیا اور کہا: میں نے اس آیت کی فصاحت کے لئے اس کو سجدہ کیا ایک دوسرے اعرابی نے کسی شخص کو سورہ یوسف کی یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا:(سورہ یوسف آیت نمبر80) وہ فوراً کار اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی انسان ایسا جملہ زبان پر نہیں لا سکتا” ای کس بلاغت میں اعجاز ہے اسے جو سنتا دنگ رہ جاتا ہے۔
حضرت امام اصمعی رضی اللہ عنہ ادب عربی اور نحو میں یگانہ عصر تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک کم سن بچی جس کی عمر بمشکل پانچ یا چھ سال تھی یہ کہتے ہوئے سنا: ”یعنی میں اپنے تمام گناہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں؟ اصمعی علیہ الرحمة کہتے ہیں کہ میں نے اسے کیا: اے بچی! تم تو ابھی کم سن ہو بالغ نہیں ہو تم کن گناہوں سے مغفرت طلب کر رہی ہو؟ اس نے جھٹ جواب دیا: ترجعہ: میں اپنے تمام گناہوں سے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں۔ میں نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کردیا ہے جو اپنے نازو نخرہ میں ایک نازک اندام ہرن کی طرح تھا رات آدھی گزر گئی ہے اور ابھی تک میں نے نماز عشاء ادا نہیں کی۔ اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے جب اس کے یہ شعر سنے تو میں پھڑک اٹھا میں نے اسے کہا:”بچی! تم کسی بلا کی فصیح وبلیغ ہو؟ وہ کہنے لگی تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھنے کے بعد بھی میرے کلام کو فصیح کہتے ہو اس نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ کر سنائی۔(سورہ قصص آیت نمبر8) اس پوری آیت طیبہ میں مختلف مضامین کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اس میں دوامر، دونہی ہیں۔ دو خبریں ہیں اور دو بشارتیں ہیں۔ دودھ پلانے کا امر اور دریا میں ڈالنے کا امر، خوف اور غم کی نہی، یعنی ذرا خوف نہ کرنا، ذرا غمگین نہ ہونا۔ دو خبریں وحی کی اور خوف زدہ ہونے کی۔ دو بشارتیں کہ اے موسیٰ علیہ السلام کی ماں! ہم اسے پھر تیرے پاس لوٹا دیں گے اور رسول بھی بنا دیں گے ان لطافتوں کو وہی لوگ پاسکتے ہیں جو ایمان کی چاشنی رکھتے ہو یا پھر انصاف کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بس اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک سے سچی محبت کرنے اور اسے پڑھنے سمجھنے، عمل کرنے اور تعلیمات قرآنیہ کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here