ایک اور رپورٹ!!!

0
188
عامر بیگ

مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
آجکل کے حالات میں اس سے اچھا اور کیا ہو سکتا ہے کہ کہیں سے آپ کے ہاتھ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ یا اسکا کچھ حصہ یا پھر اسکے بارے میں کوئی بھنک بھی لگ جائے اور آپ اسے شیئر یا لکھ کر اپنے بھولے بھالے اور مطالعہ پاکستان پڑھے ہوئے قارین تک پہنچا پائیں اب جب سارے پردے سارے راز افشا ہوتے جا رہے ہیں تو یہ راز بھی کیوں چھپا رہے کہ انیس سو اکہتر میں ہماری پاک فوج نے کس طرح سے ظلم و ستم کی ایک بھرپور اور طویل سیاہ رات بھرپا کی تھی جس کی جھلکیاں فوجی جوان آئے دن ہمیں دکھاتے رہتے ہیں جیسے دن کی روشنی میں احاطہ عدالت سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پھر نو مئی یا ججز کے لکھے ہوئے خطوط یا ابھی بہاولپور واقعہ میں پولیس کی پٹائی یہ سب واقعات کی جھلک حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کے خلاصے میں ملتی ہے جو گاہے گاہے ٹکڑوں کی صورت میں کہیں نہ کہیں شیئر کیا جاتا رہا ہے۔ یہ کمیشن جولائی انیس سو بہترکو حکومت پاکستان نے قائم کیا تھا اور اس کی سربراہی چیف جسٹس حمود الرحمن نے کی۔اس کا مقصد پاک فوج کے مظالم اور انیس سو اکہتر کی جنگ کے ارد گرد کے حالات کا مکمل جائزہ بشمول وہ حالات جن میں مشرقی ہائی کمان کے کمانڈر نے اپنی کمان میں مشرقی دستے کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے تھے کمیشن کے پہلے حصے میں پاک فوج کے مشرقی پاکستان میں تعینات جرنیلوں اور انکی کمان میں فوجی جوانوں کے اخلاقی دیوالیہ پن کا زکر کیا گیا۔ جنرل نیازی کی پان سمگلنگ, ریپ، کوٹھے چلانے والی خواتین سے جنسی تعلقات اور انہی کو بطور ٹاٹ استعمال کرنے سے لے کر، بطور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کیسز میں رشوت لے کر کام کروانے اور مختلف جرنیلوں (خصوصا میجر جنرل جمشید) اور سینئر افسران کے کروڑوں روپے مشرقی پاکستان کے بینکوں سے لوٹ کر مغربی بینکوں میں لانے کا ذکر کیا گیا۔ اس میں سینیئر ملٹری قیادت کے ان ناجائز کاموں کا ارتکاب کرنے پر اوپن ٹرائلز اور سزا کی درخواست کی گئی۔ کیونکہ یہ سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے کے مشرقی پاکستان میں حالات کی خرابی کا باعث بنے۔ دوسرے حصے میں انیس سو اکہتر کے جنرل الیکشن میں عوامی لیگ کی بھاری اکثریت کے باوجود جنرل یحیی کے حکم اور بھٹو کی دھمکی پر اسمبلی کا اجلاس موخر کرنا عوامی لیگ کی مسلح بغاوت کی وجہ بنا۔ اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج نے پچیس مارچ کی شب بدنام زمانہ آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کیا جس میں پچیس اورچھبیس مارچ کی شب میں بے حسی اور آتش زنی کے قتل، دانشور، پیشہ ور افراد کا قتل عام، بغاوت کو روکنے کا بہانہ بنا کر ایسٹ بنگال ریجمنٹ کے افسران کا قتل عام، بزنس مین اور انڈسٹریلسٹ کا قتل عام، ہندو اقلیتوں کا قتل اور بہت بڑی تعداد میں پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے بنگالی عورتوں کا ریپ کیا اور سب کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔ یہ سلسلہ آپریشن کے آغاز سے جنگ کے اختتام تک جاری رہا۔ پچیس مارچ کی شب اسلحہ اور بارود کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ جس میں دو رہائشی ہال پر مارٹر گولے مارے گئے جس کی وجہ سے بہت سے طالب علم ہلاک ہوئے۔ بہت سے جونئیر آرمی افسران لوٹ مار، فائرنگ سکواڈ کے زریعے سرعام قتل کرنے سے لے کر بنگالی افسران اور عام لوگوں کو بغیر چانچ پڑتال یا ٹرائل کے غائب کرنا اور سینکڑوں کی تعداد میں قتل ایک افسر کے اشارے پر کیے جاتے۔مختصر یہ کہ بنگالیوں پہ اپنی سر زمین تنگ کر دی گئی جہاں ان کی جان مال عزت ہر چیز لوٹی گئی۔کمیشن کا تیسرا حصہ پاک فوج کی سینئر قیادت کی بزدلی، ان کی ناقص حکمت عملی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کی وجہ بننے والے عوامل پہ روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتا ہے جنرل نیازی ڈھاکہ کا دفاع اپنی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے نہ کر سکے۔میجر جنرل رحیم مکتی باہنی کے ڈر سے اپنے ہی جوانوں کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔میجر جنرل باقر صدیقی کی غداری اور انکا بار بار ہتھیار ڈالنے کی اجازت مانگنا اور بزدلی کا تزکرہ کیا گیا۔کمیشن کا یہ حصہ بہت سے افسران کو سزا کا مستحق کہتا ہے کیونکہ ان کے بزدلانہ اور غلط فیصلوں کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ (جاری ہے)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here