اُسامہ رضا کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے ایک کتاب بعنوان محبت کی حقیقت :،فلسفہ، نیرو سانئس اور سائیکالوجی کی روشنی میں لکھی ہے۔وہ ایک نوجوان دانشور ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب مجھے ارسال کی اور اِس پر میری رائے کے خواستگار ہوئے۔ میں نے کتاب کا مطالعہ کیا اور محبت کے موضوع پر بہت دلچسپ علمی اور نفسیاتی مواد پایا۔ اِس کتاب میں انہوں نے جذب محبت پر بڑی علمی اور دلچسپ انداز میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاعروں نے محبت کے موضوع پر بڑی طبع آزمائی کی ہے اور میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے کا درس دیا ہے۔ اسامہ رضا نے محبت کی مختلف صورتوں کا علمِ نفسیات ( Psychology) اور ذہنی ساخت ( Neurology) کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے۔ انسانی جسم کے اندر ہارموز ( Harmones) کی کمی اور بیشی کی روشنی میں وہ جذب محبت کی شدت و حدت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں حالات، واقعات ، سانحات اور رسومات کے بھی انسانی نفسیات پر اثرات ہوتے ہیں۔ اِس کتاب میں علمِ نفسیات کی اصطلاحات با کثرت استعمال ہوئی ہیں گویا محبت کے جذبے کا علمی سطح پر جائزہ لیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ جب ایک شاعر پھول کو دیکھتا ہے تو وہ اس کے حسن سے متاثر ہوتا ہے جبکہ ایک ماہرِ نباتات ( Biologist) اس کا شمار ایک جڑی بوٹی کے طور پر کرتا ہے اور اس کی عملی افادیت پر تجربہ کرتا ہے۔ ایک مفکر یا شاعر جب مشاہدہ و نظار کائنات کرتا ہے تو وہ اِس کے حسن سے مسحور ہوتا ہے اور وہ ولیم ورڑزورتھ ( William Wordsworth ) یا جوش ملیح آبادی بن جاتا ہے۔ بقولِ جوش!
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لئے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
جبکہ دوسری طرف ایک سائنسدان اسی کائنات کو مادی نقط نظر سے دیکھے گا اور وہ نیوٹن ( Newton) اور آیئن سٹائن ( Einstein) کی طرح قانونِ ثقل اور زمان و مکان( Time and Space) کے نظریات سے علمِ طبیعات میں اضافہ کرے گا۔ اسامہ رضا نے جذب محبت کو دماغی ساختیات اور نفسیات کی روشنی میں پرکھا ہے۔ وہ جذبات اور وجدان کی علمِ نفسیات کی روشنی میں تفسیر و تشریح و توجہیہ کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ وہ محبت کے جذبہ پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں اور انہوں نے محبت کی باون اقسام پر روشنی ڈالی ہے۔ محبوبہ سے محبت، وطن سے محبت، والدین سے محبت ، دولت سے محبت ، علم سے محبت وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا کہ محبت پر کتاب لکھنا اچھی بات ہے لیکن کیا آپ نے کبھی کسی سے محبت بھی کی ہے؟ اِس سوال پر وہ جھینپ سے گئے۔ میں نے از راہِ مذاق کہا محبت پر کتاب لکھنے سے بہتر ہے کسی سے محبت بھی کرو تمہاری دنیا ہی بدل جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ اسامہ رضا جوانِ رعنا بھی ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ۔ اگر انہوں نے کسی سے محبت میں پہل نہیں کی تو یقینا اِن سے محبت میں کسی نے پہل کی ہو گی کیونکہ کتاب کے تیور بتاتے ہیں کہ معاملہ صرف کتاب تک ہی نہیں ہے بلکہ اِسے آگے تک کا ہے۔
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
مجھے یہ کتاب پڑھ کر بہت لطف آیا اور مجھے امید ہے کہ اِس کتاب کے قارئین نہ صرف اِس سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
٭٭٭