موجودہ دور میں جس طرح پاکستان کو ایک تماشہ بنایا جارہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔کوئی ایک کل بھی تو سیدھی نہیں اندرون ملک مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بیروزگاری بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ بجائے اسکے کہ کچھ کیا جائے ڈھٹائی سے حکومتی ترجمان بشمول وزیراعظم کے کہتے جارہے ہیں کہ ملکی معیشت دن بدن ترقی کر رہی ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر بھڑ رہے ہیں۔اور بڑھ رہے ہیں پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عوام کی چیخ وپکار دیوار سے ٹکرا کر واپس آرہی ہے۔صحافیوں کو سچ بولنے کی سزا دی جارہی مقبول ترین ٹیلیویژن پروگرامز پر پابندی لگا کر شترمرغ والا رویے اپنایا جارہا ہے۔امن وامان کی صورتحال بگڑتی ہی چلی جارہی ہے۔حد یہ ہے کہ نیوزی لینڈ ٹیم کو براہ راست طالبان رہنما واپسی کا مشورہ دے رہی ہیں اور حکومتی ترجمان خاموش ہیں۔انگلینڈ کی ٹیم نے اپنا طئہ شدہ پروگرام منسوخ کردیا۔عجیب بات یہ ہے کہ طالبان نے مشورہ نما دھمکی داعش کے کاندھے پر رکھ کر دیا ہے۔ہمیشہ سے طالبان کو کرکٹ سے دشمن رہی ہے۔یہاں البتہ فٹ بال انکا پسندیدہ کھیل ہے۔بشرطیکہ انسانی کھوپڑیوں سے کھیلا جائے۔اسی لئے ہمیں طالبان سے تو اچھائی کی کوئی توقع نہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی عوام کو تو یہ تاثر دیا جاتا رہے کہ طالبان کا افغانستان میں اقتدار میں آنا پاکستان کے لئے بہتر ہوا ہے۔اور یہ کہ حقانی گروپ جو اقتدار کے کھیل کے مرکزی کھلاڑی ہے وہ پاکستان کے حق میں ہیں۔لیکن اگر ریاست پاکستان نیوزی لینڈ کے پندرہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کا تحفظ نہیں کرسکتی تو پاکستان کی عوام کا کیا تحفظ کریگی۔دیکھا جائے تو یہ حکومت پاکستان کی بڑی ناکامی ہے اور ساتھ ساتھ اس جھوٹ کا بھانڈا بھی پھوٹ چکا کہ طالبان حکومت پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔بلکہ اب یہ نظر آرہا ہے کہ طالبان اب بلاواسطہ حکومت کرینگے پاکستان پر اور حفاظتی اداروں کو بھی انہوں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے اب ہم جو چاہیں گے وہ پاکستان کو کرنا پڑیگا۔ورنہ!؟؟خارجہ محاذ پر بھی پاکستانی حکومت اور منتخب وزیراعظم کے متعلق امریکی صف اول کے معتدل چینل نے تو بھانڈہ ہی پھوڑ دیا اور ایک سوال کے جواب میں کہ صدر بائیڈن کو امریکی صدر منتخب ہوئے تقریباً ایک سال ہونے کو ہے اور ابھی تک انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو فون بھی نہیں کیا، ایک حکومت کی حمایتیں امریکی تجزیہ نگار خاتون نے کھل کر کہہ دیا کہ عمران خان کی اہمیت تو اسلام آباد کے میئر کے برابر بھی نہیں اصل حکومت جنکی ہے انکے ساتھ خفیہ رابطے اور مذاکرات مسلسل ہو رہے ہیں۔CNNکا یہ تجزیہ آجکل سوشل میڈیا میں نہایت مقبول ہے اور اس پر امریکی حکومت نے کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے اور حکومت پاکستان کو تبصرے کی ہمت ہی نہیں ہے۔اس تجزیہ نگار نے برملا کہہ دیا کہ اب تک امداد ہم سے لینے والی پاکستانی حکومتیں اندرون خانہ طالبان کی مدد کرتے رہے اور ہمارے مفادات کیخلاف کام کرتے رہے ہیں۔بہرحال یہ کوئی نیا الزام نہیں ہے وقتاً فوقتاً مختلف امریکی حکومتیں اس الزام کو دہراتے رہے ہیں۔افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کی اس طرح جو تذلیل امریکہ کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل پر کئی گئی ہے وہ اس سے پہلے کے کمزور ترین وزراء اعظموں میں سے کسی کی نہیں ہوئی ہے۔اور یہ خبر دنیا بھر میں دیکھی گئی ہے اب تو مناسب یہی ہوگا کہ خان صاحب بنی گالہ چھوڑ کر زمان پارک کے آبائی گھر کو بسا لیں کیونکہ حالات یہی بتا رہے ہیں۔کہ انہیں بنی گالہ جیسے وسیع وعریض پہاڑی پر کوئی بھی(ماسوائے اللہ کی ذات کے)بجا نہیں پائے گا۔البتہ زمان پارک کا طاقتور برکی قبیلہ شاید کچھ کرسکے۔دوسری طرف اب افواج پاکستان کو بھی چاہئے کہ سارے پتے اپنے سینے سے لگانے کے بجائے منتخب اراکین اسمبلیوں کو اعتماد میں لیکر آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں۔کیونکہ اقتدار کے ساتھ ذمہ داریاں بھی ہوئیں ہیں اور ذمہ داریاں پوری نہیں کرنے کی صورت میں سزا بھی بھگتناپڑتی ہے ، اب پاکستانی عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا!!!۔
٭٭٭