آجکل پاکستان میں عمران خان تاحیات حکمران یا چند دنوں کا مہمان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔جس کی تصدیق انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں یہ پانچ سال اور اگلے پانچ سال بھی پورے کرونگا۔اگر مجھے نکالا گیا تو میں بہت خطرناک ثابت ہونگا۔جس کا مطلب وہ تاحیات حکمران رہنا چاہتے ہیں جس کے لیے خلیفہ بننا ضروری ہے جس کے لیے وہ آئے دن جھوٹ بول کر اپنی ریاست مدینہ یا ریاست بنی گالہ کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔جس کا اتا پتہ اگلے دنوں میں ہوگا کہ موصوف خلیفہ ہونگے۔یا لطیفہ تاہم عمران خان نے اپنی تقریر میں حقیقی مدینہ ریاست کی توہین کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بھی پانچ سال تک ناکام رہی ہے۔جس کا مطلب نعوذ باللہ حضور پاکۖ کا میثاق مدینہ صالح حدیبیہ فتح مکہ، جنگ بدر، جنگ احد اور دوسری بڑی بڑی انسانی اصلاحات ناکام ہوئی ہیں۔خلافت اے شدہ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کے دو سال ناکام ہوئے۔دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور خلافت اس وقت کی عالمی طاقتوں قیصروکسر اکا خاتمے نہ ہوا ہے۔خلافت راشدہ کے انصاف کا ڈنکا دنیا بھر میں نہیں سنا گیا ہے۔جس کی مخالفت میں لاتعداد جنگیں لڑنا پڑیں کہ جس میں ایران مصر، شام، یروشلم، یمن اور دوسرے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آئے جن پر رومیوں اور ایرانیوں کا صدیوں سے قبضے تھے۔جو مدینہ ریاست کے خلاف خطرے کا باعث بن چکے تھے۔لہذا عمران خان کا حقیقی مدینہ ریاست کی پانچ سالہ ناکامی کا الزام ایک تحت ہے جو صرف ایک کافر لگا سکتا ہے۔جو تاریخ سے ناواقف اور نابلا ہے جن کو مسلح تاریخ کا علم تک نہیں ہے جو نہ جانے اپنی بے ہوشی، مدہوشی اور بدحواسی میں مسلم تاریخ اور دین اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔جو کسی بھی شیطانی عمل سے کم نہیں ہے جس پر علماء اکرام کو جواب دینا چاہئے کہ وہ یہ کیوں قصدا غلط بیانی سے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر مجھے نکالا گیا تو میں ایک خطرناک شخص بن کر سامنے آئونگا جس کی نہ جانے کن کو دھمکی دے رہا ہے جو ایک اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کی فراسٹیشن ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے بعض معصوم لوگوں کو خلیفہ قسمیں اٹھا اٹھا کر جھوٹ بول بول کر بیوقوف بنایا تھا کہ میں یہ کردونگا اور میں وہ کردونگا جو صرف اور صرف ان ترانیاں تھیں لہذا وہ شخص جو اپنی حکومت کے دور میں کچھ نہ کر پایا ہو وہ سڑک پر کیا کریگا۔دراصل انہوں نے سیاسی جدوجہد کی بجائے جنرلوں کی گود میں پیدائش، پرورش، اور تربیت پائی ہے جس میں ان کو رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔چار دن جیل میں رہیں گے تو سب نانی یاد آجائے گی۔جس میں سارا لاڈلہ پن دور ہوجائے گا۔ہاں ایک بات کا خدشہ ہے کہ عمران خان کسی غیر ملکی ایجنڈے کے مطابق خانہ جنگی کا آغاز کرسکتا ہے جس میں وہ شاید گوریلا جنگ وغیرہ شامل ہے۔جس پر وہ مسلسل عمل کر رہا ہے جس میں انہوں نے 2014میں بغاوت سویلین نافرمانی، ٹیکسوں اور واجباتوں کی ادائیگی روکنے سرکاری اداروں پارلیمنٹ وزارت عظمیٰ پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔وہ شاید اب پھر حکومت سے نکلنے کے بعد اپنائے گا تو پھر واقعی وہ خطرناک ثابت ہوگا۔بہرکیف عمران خان کے دور بربریت اور فسطائیت میں پاکستان ڈھوب گیا جس کی معیشت تباہ حال ہوگئی ہے۔کرنسی کی بے قدری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ملک میں مہنگائی بے روزگاری، بھوک ننگ، غربت افلاس کا طوفان برپا ہے۔جس کے باوجود ناگاہ مارے چانگاہ بیٹری ڈھبن نوں عمران خان ابھی بھی اپنے خوابوں میں ہوتا ہوا کہہ رہا ہے کہ معیشت اچھی ہو رہی ہے۔مہنگائی ختم کر دی گئی ہے اگر ایسا ہے تو پھر عوام کیوں چیخیں مار مار کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ہاں عمران خان کا ایک بہت بڑا احسان ہے جو پاکستان کا کوئی لیڈر یہ کام نہ کر پایا کہ ان کے دور ناکامی اور نااہلی میں پاکستان کی اشرافیہ ننگی ہوچکی ہے کہ آج ان کی تمام ناکامیوں اور نااہلیوں کا الزام پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے سر تھوپا جارہا ہے جس نے ایک احمق اور کند ذہن نظام سقہ پاکستانی عوام پر مسلط کیا جس نے اپنی حماقتوں اور بیوقوفیوں سے ملک ڈبو دیا ہے جس کی پاکستان کی مختصر74سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔کہ جتنی اسٹیبلشمنٹ آج عوام کی زد میں آئی ہوئی ہے اتنی ماضی میں کبھی نہ تھی حالانکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ9سال تک گورنر جنرل شپ اور چالیس سال تک فوجی جنرل شپ میں حکمرانی کرتی رہی ہے یا پھر اپنے پیدا کردہ بغل بچوں کے ذریعے حکومت میں رہی ہے۔مگر اتنی ناکام اور رسوا ماضی میں نہ ہوئی تھی جو آک ہو رہی ہے جس کا کریڈیٹ تمام کا تمام عمران خان کو جاتا ہے۔کہ خود تو ڈھوبے صنم ہمیں بھی ڈبو دیا جن کے لاڈلے پن کی وجہ سے کم ازکم اسٹیبلشمنٹ بھی عوام میں ننگی ہوئی ہے کہ جس کے اثرات بہت جلد برآمد ہونگے۔کہ آئندہ پاکستان عوام کو چلانا ہے یا پھر چند جنرلوں کے ٹولہ نے جن کے دور میں پاکستان ڈھوب گیا ہے۔بہرحال جھوٹوں اور بہتاتوں کی عمارت گر چکی ہے۔نوجوان طبقہ اپنی گمراہی پر پشمان ہے جو عمران خان کی جھوٹی قسموں کا شکار ہوگیا تھا۔جس کے لیے پاکستان کے تمام طبقات کو دوبارہ متحد اور منظم ہونا پڑیگا جو ریاست پاکستان کی بقا کے لازم وملازم ہوچکا ہے۔جو پاکستان کو بدنام زمانے کی ریاستوں کے ناموں اور درجوں سے نکال کر جدید ریاست بنائیں جس کا نام اب افغانستان، صومالیہ، شام میں شمار ہوتا ہے۔جس کے لیے اشد ضروری ہے کہ آئندہ کی لانگ مارچ27فروری میں ہو یا مارچ کو ہو اس بھرپور شریک ہونا پڑیگا ورنہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے۔
٭٭٭