محترم قارئین! خداوند قدوس کا فرمان عالیشان ہے: ”اے محبوب” ! ”آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔(پارہ نمبر30سورہ کوثر) قربانی کے متعلق حضورۖ کا ارشاد گرامی قدر: ”قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی خدا کے نزدیک مقام مقبولیت میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس کو خوش دلی سے کرو(مشکوة شریف صہ128) اس حدیث کے الفاظ پر غور فرمایئے کہ قربانی کے دنوں میں ابن آدم کا کوئی عمل بھی خدا کے نزدیک قربانی سے پیارا نہیں۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کے جانور ہی خیرات رکھتی ہے۔ اسے ذبح کرنا ہی ضروری ہے کیونکہ ان دنوں میں اگر کوئی شخص قربانی کے جانور کو زندہ صدقہ کردے یا تول کراس کے وزن کے برابر سونا اور چاندی بھی صدقہ کردے بلکہ سونے اور چاندی کا پہاڑ اور جواہرات کا خزانہ بھی اگر خدا کی راہ میں لٹا دے تو قربانی کے ان تین دنوں میں اس کو ثواب عظیم نہیں مل سکتا جو قربانی کے جانور کو خدا کی راہ میں ذبح کردینے سے ملتا ہے۔ یہ کیوں نہ ہو؟ کیوں کہ قربانی کے جانور کو خدا کی راہ میں ذبح کرنے سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی تاریخی قربانی کا انمول نمونہ جس کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مئومن کے دل ودماغ میں جو ایثارو قربانی کا آفتاب وماہتاب طلوع ہوتا ہے وہ بھلا سونے اور چاندی کا پہاڑ خیرات کر دینے سے کہاں حاصل ہوسکتا ہے؟ اس اصول کو یاد رکھنا چاہئے کہ عبادت دراصل وہی عبادت ہے جو اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے قانونی طریقے سے ادا کی جائے۔ یہ حدیث مبارکہ ان مسلم نما ملحدوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو اپنے آپ کو ترقی پسند مسلمان کہتے ہوئے عبادت اور شریعت کے دیگر مسائل میں اپنی ملحدانہ عقل کا پچر لگاتے رہتے ہیں اور اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ قربانی کا جانور ذبح کر دینے سے تو زیادہ اچھا یہی ہے کہ قربانی کے جانور کی قیمت کسی فنڈ میں دے دی جائے۔ ان عقل کے یتیموں کو جو اردو کے چند وسائل پڑھ کر اپنے کو امام اعظم ابوحنیفہ سے صرف جو بھر چھوٹا سمجھنے لگتے ہیں، کون سمجھائے؟ کہ کیا عقل کے نزدیک قانون اور طریقہ کار کا بھی کوئی رتبہ ومقام ہے یا نہیں؟ ذرا غور تو کیجئے! جو قانون ہو اسی کے مطابق عمل بہتر رہتا ہے اس کے سوا سب فضول ہے سادہ سی مثال ہے کہ جہاز اور موٹرز وغیرہ پٹرول سے ہی چل سکتے ہیں عطر سے نہیں چل سکتے تو اسلامی قانون اور تمام عبادتوں میں مطابقت ضروری ہے کسی کی عقل میں آئے یا نہ آئے۔ حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن صحابہ کرام علیھم الرضوان نے دربار رسالت علیٰ صاحبھا الصلواة والسلام میں حاضر ہو کہ عرض کی کہ یارسول اللہۖ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ تو آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے پدر بزر گوار حضرات ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سنت ہے۔ پھر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولۖ ! ان قربانیوں سے ہمیں کتنا ثواب ملے گا؟ تو سرکار دو جہاںۖ نے ارشاد فرمایا: قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی ملے گی۔ یعنی قربانی کے جانور کے چھوٹے سے چھوٹے اور حقیر سے حقیر بال کے بدلے اتنی بڑی سے بڑی اور عظیم سے عظیم تر نیکی ملتی ہے۔ کہ بندہ اس نیکی کی عظمت کا تصور اور اس کی حد بندی بھی نہیں کرسکتا۔ وہ مالک ومولیٰ بڑا ہی جواد اور کریم ہے وہ بندے کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بڑے سے بڑا اجر عطا فرمائے تو اس کے فضل ورحمت سے کچھ بعید نہیں ہے۔ بہرحال ہر صاحب نصاب مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی طرف سے اور زیادہ ہوسکے تو اپنے بچوں کی طرف سے اور بیوی کی طرف سے علیحدہ علیحدہ قربانی کا انتظام صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولۖ کی رضا کے لئے کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر اچھا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے