شاہنواز خان ایک باہمت پاکستانی تھے!!!

0
7
حیدر علی
حیدر علی

یہ تقریبا” پچیس سال یا اُس سے بھی پرانا واقعہ ہے ، جیکسن ہائٹس کے پاکیزہ ریسٹورنٹ میں ڈاکٹر شفیع بیزار کی تنظیم پاکستان لیگ آف امریکا کے زیر ماتحت ایک تقریب منعقد ہورہی تھی ، جس کے مہمان خصوصی حکومت سندھ کے سابق گورنر، ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی ، دانشور اور انسان دوست حکیم محمد سعید جلوہ افروز تھے، تقریب کے اختتام پر حکیم محمد سعید سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا، ہمارے دوست شاہنواز خان نے بھی ایک سوال پوچھ لیا، سوال کیا تھا یہ تو مجھے یاد نہیں ، البتہ سوال سننے کے بعد حکیم محمد سعید نے اُن سے اُن کا نام پوچھ لیا،میرے دوست نے جواب دیا شاہنواز خان، حکیم محمد سعید یہ کہنے سے گریز نہ کرسکے کہ یہ انتہائی پُر اثر اور خوبصورت نام ہے، میرے ذہن کے دریچے میں یہ بات ہمیشہ کیلئے مرتسم ہوگئی،بلا شبہ شاہنواز نام کے جادو سے ہر کوئی متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکتا ہے، میں بھی اُن میں سے ایک ہوں ، شاہنوازخان سے میری تفصیلی گفتگو 1980 ء کی دہائی میں ہوئی جب ہم دونوں ایم کیو ایم کے ایک اجلاس میں جو فلشنگ کے ایک گھر میں ہورہا تھا شرکت کر رہے تھے،اُس زمانے میں میرا گہرا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور شاہنواز اُس سے اچھی طرح آگاہ تھے،شاہنواز کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے رسما”تھا کیونکہ اُنہیں ویڈیو بنا کر سیاسی پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہ تھی،اجلاس کے بعد شاہنواز نے مجھے میرے گھر پہنچانے کی آفر دی اور میں اُن کے ساتھ گرانڈ سینٹرل پارک وے پر فراٹے مارنے لگا، دوران سفر اُنہوں نے مجھے کہا کہ جب کبھی کسی دوائی کی ضرورت ہو تو مجھے مطلع کردینا ، گھر پر حاضر ہو کر وہ پہچا دینگے۔وقت کی مسافت کے ساتھ ساتھ ہم دونوں ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر تو نہیں البتہ لیگ آف امریکا کے جھنڈے تلے جمع ہوتے رہے لیکن قطع نظر اِس کے شاہنواز کی فارمیسی ایسو ایشن کی قیادت اور اُس کی توسط سے پاکستان کے زلزلہ اور سیلاب زدگان کی امداد ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیگی. بعد ازاں مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ شاہنواز کی گھر تک پہچانے والے پرسکرپشن صرف مجھ تک محدود نہ تھی بلکہ تمام پاکستانی اِس سے فیضیاب ہورہے تھے، پاکستانی کمیونٹی کیلئے شاہنواز خان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا،واضح رہے کہ وہ نیویارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ کے ماتحت چلنے والا ہارلیم ہاسپٹل سے ایک طویل عرصہ تک بحیثیت ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے ہیں، اُن کے ماتحت فارمیسی کا سارا ڈیپارٹمنٹ جس کا عملہ پچاس سے زائد افراد پر مشتمل تھا کام کیا کرتا تھا۔ عملے کے کچھ افراد پاکستانی تھے اور جو فارماسسٹ کی خدمات بجا لاتے تھے،شاہنواز خان نے پاکستانی عملے کو سر آنکھوں پر رکھنے کو ملازمت کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ سمجھا تھا،اُن کا یہ رویہ ہاسپٹل کے اعلی افسران کو نہ بھایا، اِسی دوران شاہنواز خان کے ماتحت کام کرنے والے کچھ ملازمین نے اُن کے خلا ف چند بے بنیاد الزامات بھی عائد کردیئے کہ شاہنواز خان پاکستانی نژاد امریکی کو شفٹ کی تفویض کرنے میں ترجیحات کو روا رکھتے ہیں، اُنہیں چھٹیاں دینے میں بھی پاکستانیوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے،اِسی طرح عملے کو ترقی دینے اور اُن کی تنخواہوں میں اضافے اور دوسری مراعات دینے میں ہمیشہ پاکستانیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملازمین کی جانب سے الزامات کے پیش نظر شاہنواز کے خلاف وہاں کی انتظامیہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی، مختصرا”عرض یہ ہے کہ شاہنواز خان کو صرف پاکستانیوں کے مفاد ات کی حفاظت کرنے کی سزا دی گئی تھی اگر شاہنواز چاہتے تو دوسرے پاکستانیوں کی طرح اپنے ہم وطنوں کو صرف ہاتھ ہلا کر گذر جانے کو اپنا شعار بنا لیا ہوتا، تحقیقاتی کمیٹی بھی ،اِس نتائج کے ساتھ سامنے آئی تھی کہ شاہنوازپاکستانی نژاد امریکیوں کو ترجیحی بنیاد پر سلوک کیا کرتے تھے اور جو اُن کی ملازمت کی شرائط کی خلاف ورزی ہوتی تھی، شاہنواز خان نے اپنے حق کے حصول کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن نیویارک سٹی کے ہاسپٹل کے خلاف نیویارک کی عدالت اُس کے خلاف فیصلہ دینے کو توہین عدالت سمجھتی ہے، میرے دوست شاہنواز خان کو کسی تقریب کی نظامت کرنے کا بہت شوق تھا یہی وجہ تھی کہ جب مجھے اپنی ناول ”دی لاسٹ ٹیررسٹ” کی تقریب رونمائی کروانی تھی تو میں نے اُن سے تذکرہ کرنے کو اپنا حق سمجھا تھا، اُنہوں نے جواب دیا تھا کہ ناول مجھے دے دو وہ پڑھ بھی لینگے چند دِن بعد جب میری اُن سے ملاقات ہوئی تو مسکراتے ہوے کہا کہ ناول اچھی ہے لیکن کہیں اندر نہ ہوجانا۔ بلاشبہ میں نے اپنے ناول میں امریکا اور اُس کے حمایتیوں کی افغانستان اور عراق میں جارحیت کی تائید نہیں بلکہ مخالفت کی تھی، مجھے اُس کے نتائج کا علم تھا لیکن مجھے شاہنواز کی دیدہ دلیری ، ہمت اور حق کی پاسداری کرنے کے جذبے کو اپنا مطمع نظر بنانے کا بھی علم تھا، شاہنواز خان کی رگوں میں وہ خون دوڑ رہا تھا جس نے انگریزوں کے خلاف غدر کی ابتدا کی تھی اور اُن کے اقتدار کو لرزا کر رکھ دیا تھا،شاہنواز نے صرف نظامت کے فرائض کو نہ صرف اپنے دِل کی گہرائیوں سے با خوش اسلوبی انجام دیئے تھے بلکہ اپنے مخصوص انداز جس میں ہمیشہ و طنز و مزاح شامل ہوتے تھے اُسکے فوارے بھی بکھرتے رہے تھے،آج شاہنواز ہمارے درمیان نہیں لیکن اُن کی اپنے وطن کے غریب و مفلس عوام کی خدمت کو صرف اﷲتعالیٰ ہی قیامت کے دِن پیش نظر رکھیں گے، ہم امریکا میں رہتے رہتے بے حس اور مصلحت پرست ہوگئے ہیں، ہم صرف اُس کی پرستش کرتے ہیں جس سے ہمیں کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here