فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اعلیٰ حضرت امام اھل سنت، مجدّد دین وملت الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کا اھل سنت وجماعت اُمّت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے جس شان سے آپ نے عقائد اسلامیہ اور مسائل دینیہ کو بیان کیا اور دلائل کے انبار لگائے یہ آپ کا ہی خاصہ ہے۔ ہر سال24، 25صفر المظفر کو آپ کی خدمات دینیہ کو خراج عقیدت مرکز اہل سنت آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان پر خصوصی طور پر اور عمومی طور پر پوری دنیا میں مختلف تواریخ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی24، 25صفر المظفر بروز جمعتہ المبارک، ہفتہ بتاریخ30، 31اگست کو یہ اجتماعات ہوں گے چونکہ25 صفر المظفر آپ کا یوم وصال ہے اس وجہ سے اشتہارات پر زیادہ تر تذکرہ25صفر کے اجتماعات کا ہے۔ پوری دنیا سے علماء اہل سنت اس اجتماع میں شامل ہو کر برکتیں حاصل کرتے ہیں اور عوام الناس کا جم غفیر بھی۔ حضور محدّث اعظم پاکستان اور نائب محدّث اعظم پاکستان شمس المشائخ رضی اللہ عنھما کے بعد اب اس عظیم الشان، فقیدالمثال اجتماع کی سرپرستی نبیرہ محدّث اعظم پاکستان، جگر گوشہ شمس المشائخ، قائد ملت اسلامیہ فخر المشائخ صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زیدشرفہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان فرماتے ہیں۔ نگرانی صاحبزادہ والا شان صاحبزادہ محمد علی حیدر قادری متولی مرکز اھل سنت آستانہ عالیہ ومرکزی سنی رضوی جامع مسجد زیدظلہ فرماتے ہیں۔ اسی طرح یہ پروگرامز مرکز اھل سنت مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی یو۔ایس۔اے میں بھی جاری رہتے ہیں۔ اس کے انتظامات جی۔ ایم۔سی فائونڈیشن کے تحت طے پاتے ہیں۔ بس امام اھل سنت کے احسانات کا ذکر ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کرکے دنیاوآخرت کی بھلائیاں اور کامیاں سمٹنے کے درپے تھے۔ یقیناً آپ کی شخصیت جس قدر عظیم ہے اصحاب فکر و ایمان کی طرف سے اس کا کماحقہ اعتراف نہیں کیا گیا۔ آپ کی رفعت ایمان کا تصور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم وقت کے آئینہ خانے میں کھڑے ہیں جس میں آپ کا وجود شمع ایمانی کی صورت ضوفگن ہے۔ اس ایک شمع کے پر تو سے اس شیش محل میں لاتعداد شمعیں فروزان دکھائی دیتی ہیں۔ اور اہل نظر محو حیرت ہیں کہ کہیں شمع کو بزم فکر میں سجائیں اور کس سے صرف نظر کریں۔ یہ تمام شمعیں نظر کا فریب نہیں بلکہ آپ کی جامع الصفات ذات کے وہ بے شمار پر تو ہیں جن میں سے کسی سے بھی اغماض کرنا دیانتدار مورّخ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ عالم باکمال، فقیہ لازوال، محدّث زمانہ، مصنف یگانہ، صاحب اسلوب شاعر حامل فکر نژنگار، علوم ہستی کا بحر بے کنار، عشاق سرمست کا حامل افتخار، غرضیکہ جس حیثیت سے بھی دیکھیں آپ کی شخصیت یہ اعلان کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔۔۔۔سارے عالم پر ہوں میں چھایہ ہوا
جس قدر فتنوں کا دور دورا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ دنیا اس عظیم امام کی عظمت فکروفن کو پہچان ہے جو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ کے لفظوں میں وقت کا امام اعظم ابوحنفیہ ہے اور غلامان سیّدابرارۖ کی نگاہوں میں مجدّد دین وملت ہے جو دو قومی نظریہ کا افتخار بھی ہے اور عظمت اسلاف کا پاسدار بھی جو عشق سرکار دو عالمۖ کا مظہر بھی ہے۔ اور سوز وساز فطرت کا پیکر بھی جو کاروان عقیدت کا سالا بھی ہے۔ اور اقلیم علم وحکمت کا پاس دار بھی۔ اور جو تمام زندگی شاہان وقت سے منہ موڑ کر سرور سلاطین عالم حضور محمد مصطفیٰۖ کی ثناء گوئی اس احساس سے سرشار ہو کر کرتا رہا کہ
کروں مدح اہل دول رضا، پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کیم کا میرا دین پارہ ناں نہیں
آپ رضی اللہ عنہ ایک فرد تنہا نہیں ایک ملک گیر ادارہ تھے۔ آپ فرد واحد کب تھے؟ آپ تو نقیب ملت اسلامیہ تھے۔ آپ واجد بض جلیل تھے جنہوں نے ملت احناف کو جگایا۔ گرتوں کو اٹھایا ہندو کے سحر میں امیر غلامان مصطفیٰۖ کو بادہ سرمدی کا جام پلایا۔ آپ کو راہ وفا میں اپنے سینہ پر نور پر بیشمار تیر کھانے پڑے۔ آپ نے سب برداشت کئے۔ ملت اسلامیہ کو فتاویٰ رضویہ، حدائق بخشش اور ترجمتہ القرآن کی صورت میں ایسے عظیم تحفے دیئے ہیں۔ کہ قیامت تک ان کی روشنی عاشقان مصطفیٰۖ کے سینوں کو منور کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭