عتیق صدیقی، ”تقویم” تاریخ اور کالم !!!

0
9
کامل احمر

٢٢دسمبر آپ مانیں یا نہ مانیں، صحافت کی دنیا میں نیویارک میں ایک بڑا دن تھا کہ پچھلے کئی برسوں میں ہم نے کالم پر مبنی کسی کتاب کا ایسا شاندار اجراء دیکھا ہو۔ کہتے ہیں کہ کالم کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے لیکن اگر کالم لکھنے والا عتیق صدیقی ہوا تو وہ تاریخ بن جاتی ہے۔ جو مستند سورخ کی تحریر سے کہیں زیادہ اثر انگیز اور یادگار بن جاتی ہے کہ507صفحات کی کالموں پر مبنی کتاب تقویم جو افغان جنگ کے تناظر میں لکھے گئے کالموں کو تاریخ کا رنگ دیتی ہے۔ اس شاندار تقریب میں ہم اپنی علالت کی وجہ سے نہ جاسکے لیکن پھر ہم تک جو تفصیل پہنچی۔ ویڈیو، اخبار اور میڈیا کے ذریعے وہ دیکھ کر اور پڑھ کر ہمیں خوشی ہوئی۔ ہر چند کہ اس پروگرام کی زینت نیویارک کے دانش مند اور کالم نویس کے علاوہ شعراء بھی تھے جنہوں نے عتیق صدیقی صاحب کے کالموں پر معلومات دیں اور سیر حاصل تبصرہ کیا ان میں پروفیسر اشرف عدیل کی تجزیہ سن کر یقین آیا کہ انہوں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور بغور کیا ہے۔ لفظ تقویم جو عتیق صدیقی صاحب کی کتاب کا عنوان ہے کچھ لوگوں کے لئے مبہم ہے لیکن اس سے بہتر عنوان نہیں کہ یہ ایک کلینڈر ہے افغانستان میں دوسرے ملکوں کی دخل اندازی اور تباہ کاری کا ہے اسے آپ جنتری بھی کہہ سکتے ہیں تاریخ با تاریخ جو پچھلے بیس سالوں پر لکھی گئی ہے اور پروفیسر اشرف عدیل کے بقول تقویم کا بنیادی موضوع جنگ ہے، اس جنگ نے انسانی، معاشی، سماجی اور ماحولیاتی تباہی پھیلانے کے علاوہ امریکہ اور مغرب کے کردار کو داغدار کردیا ہے۔ امریکہ اپنی تاریخ میں228سال حالت جنگ میں رہا ہے۔ پاکستان بھی ایک طرح سے ”کلچر آف وار” میں جکڑا ہوا ملک ہے۔ عتیق صدیقی نے اس جنگ کے خلاف آواز اٹھائی ہے انہوں نے کہا کہ ”جنگوں سے کیا سبق حاصل کرنا چاہئے”۔ اس کے لئے عتیق صدیقی کی کتاب تقویم جیسی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہماری نظر میں یہ کتاب اس سے بھی کہیں زیادہ ہے جو امریکہ اور مغرب کے لئے امن اور عزت کی راہ دکھاتی ہے اور یقیناً عتیق صدیقی صاحب نے یہاں رہ کر پاکستانی سیاست عوام کی نیلامی اور معاشرہ کی تباہ کاری کا ذکر کیا ہے کہ رہنمائوں کی اخلاقی پستی کی تصویر(ایک بگڑی تصویر) ہمارے سامنے کھڑی کردی ہے جو امریکی سیاست کا حصہ ہے اور بتاتا ہے کہ امریکہ نے چاروں طرف سائوتھ امریکہ سے افغانستان، مڈل ایسٹ کو اپنے دائرے میں لے کر جنگ کو پھیلائو دیا ہے۔2006میں بوسٹن گلوب اور پھر نیویارک ٹائمز کے رپورٹر اسٹیفن کنسنرر نے انہی جنگوں کے پھیلائو پر ہوائی سے عراق تک میں کی روئیداد تفصیل سے بیان کی ہے جس کا نام ”OVERTHROW” ہے جو دوسرے ملکوں میں تبدیلی حکومت کے بارے میں ہے جو اب تک جاری ہے اور پاکستان اس کا نشانہ بنا ہوا ہے اور بنا رہے گا۔تقویم ایک اثاثہ ہے اور لائبریری میں رکھنے کے لئے تحفہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے جو ابھی جاری ہے ہم کہہ سکتے ہیں اُسے واشنگٹن میں دنیا کی سب سے بڑی یادگار کتابوں کی لائبریری”LIBRARY OF CONGRESS ” میں جو واشنگٹن میں ہے رکھا جائے۔ اس سلسلے میں ہم جہانگیر خٹک صاحب پر زور دینگے کہ وہ اپنے رسوخ کو کام میں لائیں خیال رہے جہانگیر صاحب صحافت پڑھاتے ہیں جیتے ہیں اور بولتے ہیں ان کا کہنا تھا تقویم سے پشاور کی خوشبو آتی ہے اگر ہمیں اقوام عالم بالخصوص اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں کتاب بینی میں بھی دنیا کا مقابلہ کرنا ہوگا، ان کا کہنا تھا پاکستان میں سال میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتابیں شائع ہونی چاہیئں جن کے کروڑوں قاری ہوں۔ ہماری بھی یہ خواہش ہے اس کے لئے تحریک کی ضرورت ہے ہم پر زور کہینگے کہ تاریخ یاد رکھنا چاہئے۔ اور لائبریریوں میں نہ کتابیں مل سکتی ہے۔ اس کتاب کو پاکستان کی ہر لائبریری کے علاوہ ہر کالج اور اسکول میں پہنچانے کی ضرورت ہے بلکہ اشد ضرورت ہے۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم صبیحہ صبا کا ذکر کرتے چلیں کہ انہوں نے شاعرہ ہوتے ہوئے، جنگ اور صحافت پر مختصر انداز میں بامعنی اور بھرپور باتیں کہیں انکا ہر لفظ غمازی کرتا تھا کہ انہیں صحافت میں ہی ہونا چاہیئے تھا انکا کہنا تھا کہ ”تقویم کی یہ تقریب چھ نسلوں کی تھریب ہے۔ اور جو ہر میئر کے مصرعے کی یاد دلائی” اے خدا زیر زمین تیل کو پانی کردے” یہ مصرعہ ایک آخر ہے ان سب جنگوں کا جو عرصہ سے جاری ہیں اور رہینگی۔ انکی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نکالے۔ انکا یہ کہنا درست تھا کہ ” اگر اُن کے بس میں ہوتا تو وہ عتیق صاحب کو اس کتاب پر”DR OF LAW ” کی اعزازی ڈگری دیتیں۔ اور ہماری خواہش ہے کہ ہم انہیں صحافت پر پی ایچ ڈی عطا کریں ساتھ یہ بھی دل چاہنا ہے کہ ہم صحافت کے طالبعلم ہوتے اور تقویم پرPHDلیتے۔ تقویم جوکہ اُن کے بیس سالہ کالموں کا نضف ہے۔ اُس کر پڑھ کر ایک یا دو کالموں میں سمیٹنا ناممکن ہے چاہیں کتنے اختصار سے کام لیں۔ ان لکھے تمام نہیں چند کالموں سے لی گئی چند تحریروں کا ذکر لازمی ہے عتیق صدیقی نے٢٠سالہ زبردستی لادنے والی امریکی جنگ کے لئے لکھا ہے
”دروغ گوئی پر جنگیں استوار کرنے کا اقدام”
ایک بڑی طاقت کے ہاتھوں جنگ کا آغاز گو ناگوں مضمرات اور نتائج سے بھرا ہوتا ہے۔ اس لئے جنگ شروع کرنے سے پہلے اس کے اخلاقی اور قانونی جواز کی درستگی کا مکمل محاکمہ ایک اہم قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری ہوتا ہے۔9/11کے جواب میں2001میں افغانستان پر حملے کے بعد مارچ2003میں عراق میں بھی جنگ کا آغاز کرنا ایک اہم ترین بین الاقوامی فیصلہ تھا جس کے نتائج، عراقی عوام، امریکہ اور باقی دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد جس طرح منظم دروغ گوئی پر رکھی گئی اس کی مثال جدید تاریخ میں شاذو ناد رہی ملتی ہے(صفحہ12)
اور ہم نے برسوں پرانی تاریخوں کے صفحات کھنگال ڈالے۔ رومن، یونانی برطانیہ ایسی مثال نہیں ملی۔ یہ بات امریکہ کو ہی مبارک ہو، دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ صدر آئزن ہاور نے کہا تھا ،ایک الوداعی تقریب میں جنوری١٧،1961کی شام اپنی دس منٹ کی تقریر میں ایک بات کہی تھی ”AS ANECESSARY EVIL” کہا تھا۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے لئے اور آج53سال بعد اسکے نتائج سامنے ہیںجس کا تذکرہ، پشاور کے صحافی، مشاعر اور دانشور، ناصر علی سید نے کیا ہے ”جنگلوں میں چیخنے والی قدیم حیوانیت کو ہم جدید دور کے انسانی حقوق کے دعویدار ملک کے ایک سربراہ کی اس ”شوخی” سے کس طرح الگ کر پائینگے جو اس نے9/11کے شکار ٹاورز کے ملبے پر کھڑے ہو کر دکھائی تھی”۔ عتیق صاحب کی اس دلیرانہ تحریر کا مقابلہ کوئی گالمسٹ شاید ہی کر پائے۔ امریکی پاکستانی یہ تجزیہ انکے پشاور کے دوست اور تاحال محرک جناب ناصر علی سیّد کا ہے جو تاریخ کی تبدیلی سے نیویارک کی سیٹ بک کرانے میں ناکام رہے ہمیں اُن کی کمی محسوس ہوئی یہ کہی کہنا پڑتا ہے کہ اچھے اور سلجھے ہوئے دانشور دیر سے ملتے ہیں انہوں نے عتیق صدیقی کی اس تحریک کا موازنہ احمد ندیم قاسمی اور قرة العین حیدر کے افسانوں سے کیا ہے” جب میں احمد ندیم قاسمی کا افسانہ پڑھتا ہوں تو لگتا ہے جیسے کسی گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور محلہ کا سب زیادہ پریشان اور مضطرب شخص احمد ندیم قاسمی ہے مگر قرة العین حیدر کا افسانہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آگ اس کے اپنے ہی گھر میں لگی ہوئی ہے” گویا یہ آگ قرة العین حیدر کی طرح عتیق صدیقی کے اپنے گھر میں لگی ہوئی تھی۔ کیا خوب لکھا ہے کہ تعریف کئے بغیر چارہ نہیں۔
ہمارا یہ کالم جاری رہے گا اور عتیق صدیقی کے کالم کے ساتھ ہم کالموں کی تاریخ بھی بتاتے چلیںگے نئے پڑھنے والوں کے لئے۔ کالم کی تعریف یہ ہے کہ تنقید کی جائے خبروں پر اور اس کا حل بھی بتایا جائے جو ہمارے بزرگ رئیس امروہوی کرتے تھے کہ اخبار میں پہلے صفحہ کی خبر کے بعد کالم ہی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔ لیکن یہاں تو پوری کتاب ہی ہماری توجہ کا مرکز ہے جب کہ ہم خود پچھلے13سال سے کالم لکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے دوست کالموں کو ”یوں ہی” نہ سمجھیں یہ ایک ایک تاریخ ہے(جاری ہے)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here