نیا سال اور مسلم اُمہ!!!

0
14

نیا سال اور مسلم اُمہ!!!

میرے اس کالم کے قارئین کے سامنے آنے تک یقینی طور پر نیاسال شروع ہو چکا ہوگا،نئے سال کی آمد پر بھرپور جشن منایا گیا ،امریکہ میں اس حوالے سے خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن نیا سال مسلم اُمہ کیلئے خوشی کی بجائے سوچ و بچار اور غور وفکر کا پیغام لے کر آیا ہے ، 2024مسلم اُمہ کیلئے بہت خوفناک رہا ہے ، مشرق وسطیٰ میں جس طرح مسلم اُمہ کا خون بہایا گیا اور ابھی بھی بہایا جا رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے ، سینکڑوں بچے یتیم، سینکڑوں خواتین بیوہ ہوگئیںاور سینکڑوں لوگ دنیا سے کوچ کر گئے ۔نیا سال ہمیں اپنے آئندہ نسلوںکو محفوظ بنانے ان کے مستقبل کو درخشاں بنانے کیلئے اقدامات کی طرف قائل کر رہا ہے ، امریکہ میں نئی حکومت کا انتخاب ہو چکا ہے ، صدر ٹرمپ کو مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ دیا ہے شاید اس سے قطع نظر رہے کہ ٹرمپ وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے مسلمانوں اور مذہب اسلام پر بے جا پابندیاں لگائیں اور سیریل کلر ”نیتن یاہو” کو اپنے اقتدار میں آنے تک مشرق وسطیٰ میں قتل و غارت گرری کا گھنائونا منصوبہ مکمل کرنے کا ٹاسک دیا ۔اب مسلم اُمہ سمیت مسلمان حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ، 2025میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کو بڑے مشن کے طور پر آگے بڑھانا ہوگا۔مشرق وسطیٰ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوگیا ہے مگر غزہ کے 6 لاکھ سے زائد طلبہ تعلیم سے محروم ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ماہ ستمبر میں ہوتا ہے جو اگلے سال جون تک جاری رہتا ہے مگر جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ کے رہائشی 6 لاکھ سے زائد طالب علم پچھلے ایک سال سے اسکول اور دیگر تعلیمی اداروں سے دور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے بعد غزہ کے لوگ زیادہ تر سکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جب کہ 80 فیصد سے زائد اسکول یا تو مکمل تباہ ہوگئے یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ غزہ میں قائم آخری یونیورسٹی کو بھی اسرائیلی فوج نے اس سال جنوری میں تباہ کردیا تھا۔غزہ کے 6 لاکھ 30 ہزار طلبہ اکتوبر 2023 سے اسکول نہیں جاسکے اور 39 ہزار طالب علم اپنے ہائی اسکول کا امتحان نہیں دے سکے جب کہ اسرائیلی حملوں میں 300 سے زائدسکول تباہ ہوگئے۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک 25 ہزار بچے زخمی یا شہید ہوگئے ہیں جن میں سے 10 ہزار طالب علم تھے ۔41 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کے 20 لاکھ لوگ بیگھر ہو چکے ہیں۔ مغربی کنارے میں مزید 600 فلسطینی مارے گئے ہیں۔ اْدھر لبنان میں مزید 10 لاکھ افراد بیگھر اور دو ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔سات اکتوبر 2023 کو 1200 سے زیادہ اسرائیلی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد شروع ہونے والی حماس، اسرائیل جنگ میں مزید 350 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں بھی 50 کے قریب اسرائیلی فوجی اور عام شہری مارے گئے ہیں جبکہ دو لاکھ اسرائیلیوں کو غزہ کے قریب اور لبنان کے ساتھ غیرمستحکم شمالی سرحد کے ساتھ واقع گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔پورے مشرق وسطیٰ میں بہت سے دوسرے فریق بھی اس لڑائی میں شامل ہو چکے ہیں۔ عراق اور یمن سے بھی اسرائیل پر راکٹ داغے گئے ہیں جبکہ اسرائیل اور ایران کے مابین بھی میزائل حملوں کا تبادلہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تھمتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔بحران کو بڑھنے سے روکنے کے لیے امریکی کوششیں، جن میں صدارتی دورے، لاتعداد سفارتی مشنز اور بڑے پیمانے پر عسکری وسائل کی حرکت شامل ہے، سب بیسود رہے ہیں۔ ماضی میں امریکہ کسی بھی معاملے میں شاذ و نادر ہی اتنا کم بااثر نظر آیا ہے۔جیسے جیسے تنازع پھیلا اس کی اصلیت ایک ٹریفک حادثے کے پاس سے گزرنے والی گاڑی کے عقبی منظر دکھانے والے آئینے میں پیچھے رہ جانے والے منظر کی طرح دھندلانے لگی۔سات اکتوبر سے پہلے اور بعد میں غزہ کے باشندوں کی زندگیوں کو اب تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کو مشرق وسطیٰ میں ‘ایک کْھلی جنگ’ کا امکان بیچین کر رہا ہے۔ایک سال پہلے بہت کم لوگوں نے سوچا ہو گا کہ مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں میں سب سے خطرناک حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ایک برس بعد جہاں جاری تصادم کے اثرات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، امن کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور پالیسیاں بنانے والے ہوں یا ہم جیسے مبصرین سبھی اس سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،اب جبکہ غزہ میں شروع ہونے والا تنازع دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہے، لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی بحالی اور وہاں حکومت کیسے ہو گی جیسی باتیں بند ہو چکی ہیں یا ایک بڑی جنگ کے خدشے کے پیش نظر کہیں پیچھے رہ گئی ہیں۔یہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعے کے حل کے بارے میں بھی کوئی معنی خیز بحث کا بھی امکان دکھائی نہیں دے رہا اگر کسی موقع پر اسرائیل محسوس کرتا ہے کہ اس نے حماس اور حزب اللہ کو کافی نقصان پہنچا لیا ہے اور اسرائیل اور ایران دونوں اپنا ردعمل ظاہر کر چکے ہیں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس سے خطہ مزید گہرے بحران میں نہیں ڈوب جاتا اور یہ کہ امریکی صدارتی انتخاب ختم ہو چکا ہے، سفارتکاری کو شاید ایک موقع اور مل سکتا ہے لیکن ابھی، یہ سب کہیں بہت دور محسوس ہوتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here