اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو !!!

0
4

2024 کا سال غزہ کے مظلوم و مجبور فلسطینیوں پر جس قدر سخت گزرا ہے، اس کی مثال پوری تاریخِ عالم میں ملنا ناممکن ہے۔ اتنے طویل عرصے تک اپنی باقاعدہ فوج کے بغیر حالتِ جنگ میں رہنا، پوری دنیا کے سامنے، اپنی قوم کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھنا اور بے بسی کے عالم میں کچھ نہ کر سکنا، بدترین جنگی جرائم کا نہتے ہوتے ہوئے سامنا کرنا اور اس پر اپنے نام نہاد بھائیوں سے یہ طعنے بھی سننا کہ قصور تو تمہارا ہی ہے کیونکہ تمہیں تو ظالم کو چیلنج کئے بغیر بلک بلک اور سسک سسک کر مر جانا چاہئے تھا۔ تمہاری یہ جرات کیسے ہوئی کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو للکار بیٹھے۔ بہرحال غزہ کے غریب اور مسکین فلسطینیوں نے بظاہر انتہائی مہذب ورلڈ آرڈر کے ہر شعبے کو بالکل برہنہ کرکے رکھ دیاہے۔ بنیادی حقوق کے علمبرداروں سے لے کر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاستوں تک، سب کے سیاہ چہروں سے ملمع جات اتار دئیے ہیں۔ اب جب اصل بھیانک چہرے سامنے آئے ہیں تو آدم خور بھیڑئیے بھی ان کے مقابلے میں کم ظالم نظر آنے لگے ہیں۔ افسوس اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ یہ نیا سال بھی غزہ کے مظلوموں کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں لا سکا۔ احمد فراز نے صحیح کہا ہے کہ!!
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
کا ایک انتہائی اہم واقعہ بنگلہ دیش کی ظالم و جابر حسینہ کی حکومت کا خاتمہ بھی ہے۔ ہمارے بنگالی بھائیوں کا سیاسی شعور، ایک مضبوط ریاستی نظام کو گھٹنوں پر لے آیا اور یہ انقلاب نسبتا پرامن بھی رہا۔ اس تبدیلی کے اصل محرک تو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہی رہے اور اب وہی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی مصروف ہیں۔ ہندوتا کے پیروکار، بڑی شدومد سے اس انقلاب کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے تو ہیں لیکن ابھی تک ناکامی ہی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ حفیظ جونپوری نے کیا خوب کہا تھا کہ!
نیا ہے اب کے برس کچھ بہار کا عالم
جنوں کا زور تو ایسا گزشتہ سال نہ تھا
کے سال نے بلادِ شام میں جن تبدیلیوں کا آغاز کیا ہے، وہ پوری دنیا کیلئے بہت اہم ہیں۔ اسد خاندان کی نصف صدی پر محیط ظالم و جابر حکومت بالآخر اختتام کو پہنچی۔ کل کے محکوم، آج حاکم بن چکے ہیں۔ دمشق میں آنے والی یہ تبدیلی، بلادِ شام کے علاقوں فلسطین، اردن،لبنان،وادء سینا اور موجودہ شام پر اثرانداز تو ہوگی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عراق، ترکی اور دیگر عرب ممالک بھی ضرور اس کی زد میں آئیں گے۔
2024کا سال پاکستان کے نظامِ ریاست کیلئے انتہائی اندوہناک بلکہ شرمناک گزرا۔ آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد بالآخر آٹھ فروری کے دن عام انتخابات کروا دئیے گئے۔شومئی قسمت کہ جس عمران خان کو مقتدرہ نے ہرانا تھا وہ اس کے باوجود جیت گیا۔ اس کی پارٹی کا انتخابی نشان چھین لیا گیا، اس کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی پھاڑ دئیے گئے اور انہیں مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا۔ اس کو قید خانے میں ڈال کر، اس کا نام اور آواز و تصویر تک میڈیا سے غائب کردی گئی۔ قاتلانہ حملے بھی کئے گئے۔ چادر اور چاردیواری کا تقدس بھی پامال ہوا لیکن پاکستانی عوام پھر بھی ڈٹے رہے۔ اب یہ سال تو ختم ہورہا ہے لیکن خان بری طرح زیرِ عتاب ہے۔ اسی وجہ سے پورا ملک بھی عدمِ استحکام کا شکار ہے اور معاملہ ، نومبر کے سانحہ اسلام آباد تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ابنِ انشا نے اسی موقع کیلئے تو کہا تھا کہ
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
اعلی عدالتوں کو فتح کر لینے کے بعد، پاکستان کی مقتدرہ اب زیادہ من مانیاں کر رہی ہے لیکن عوام الناس میں اس کا رعب اور خوف کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔البتہ خواص کیلئے، اس کا رعب و دبدبہ پہلے کی طرح قائم و دائم ہے۔ بہت سارے بڑے لوگ خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور مزید کچھ پر تول رہے ہیں۔ پروین شاکر کے بقول
شہر وفا میں دھوپ کا ساتھی نہیں کوئی
سورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
کے سال نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں جیتتے ہوئے بھی دیکھا۔ ایک انہونی کا اس طرح ہوجانا بڑی اہمیت کی بات ہے۔ ایک غیر روایتی سیاست دان ہونے کے ناطے اس کا دوبارہ جیت جانا، امریکہ کے نظامِ ریاست اور ورلڈ آرڈر کیلئے ایک بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
کے سال کے دوران پیش آنے والا، میرے نزدیک سب سے اہم واقعہ، امریکی کانگریس میں پاس ہونے والا بل H Res. 901 ہے۔ سات کے مقابلے میں ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کئیے جانے والی یہ قرارداد، پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، امریکی انتظامیہ اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزیوں کو ختم کیا جائے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق بحال کئے جائیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی امریکی سیاست میں اس نوعیت کی مداخلت ایک انتہائی خوش آئند امر ہے اور مستقبل میں اس اثر و رسوخ کو دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر صیہونی اور ہندوتا لابیز، سیاسی طاقت کے اس مظاہرے پر کافی پریشان ہیں۔آخر میں بسمل صابری کے یہ اشعار حاضر ہیں جو کے اختتام پر ہماری حالت بیان کر رہے ہیں۔
انداز ہی عجیب ہمارے سفر کے ہیں
جاتے ہیں کس طرف کو ارادے کدھر کے ہیں
کوئی ہماری بات کا کیونکر یقیں کرے
سینوں میں تیرگی ہے ،پیامی سحر کے ہیں
پہرہ لگا دیا ہے یہ کیوں میرے ذہن پر
محتاج کیا خیال مرے بال و پر کے ہیں
بسمل کہیں بھی ہم رہیں کچھ فرق ہی نہیں
صحرا کے ہیں جو رنگ وہی اپنے گھر کے ہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here