دین اسلام کی آخری اتھارٹی قرآن و حدیث!!!

0
4

دوستو یاد رکھیں دین اسلام میں آخری اتھارٹی قرآن وحدیث ہے آج بھی اگر ہم قرآن کریم کی بارگاہ میں دل کا کشکول لیے حاضر ہوں تو ہمیں حق کی خیرات ضرور ملے گی میں حیران ہوتا ہوں جن مقدس ہستیوں کو عقیدت ومحبت کا خراج پیش کرنا تھا آج ان پر مناظرے ہو رہے ہیں۔ پوری اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ الصحابةُ کلُھم عدُول یعنی تمام کے تمام صحابہ عدل والے ہیں جب بھی ان کا ذکر کیا جائے گا تو خیر کے ساتھ ہی کیا جائے گا کسی بھی صحابی کی توہین کرنے والا شخص گمراہ، بے دین اور جہنمی ہے۔اب سنیئے کہ صحابی ہے کون میں بلکل آسان تعریف کروں گا۔علماء فرماتے ہیں وہ شخص جس نے اسلام کی حالت میں رسول کریم کا دیدار کیا یا آپ کی مجلس میں بیٹھایا آپ کو سنا اگرچہ یہ سعادت اسے ایک لمحے کے لئے ہی کیوں نہ ملی ہو اور اب اس کی موت بھی اسلام پر ہوئی تو ایسے شخص کو صحابی کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک توجہ طلب نکتہ عرض کرنا چاہوں گا عزیزان گرامی۔آپ کو ایسے کئی صحابہ کا ذکر ملے گا جنہوں نے ادھر کلمہ پڑھا صحابی بنے اور شہید ہوگئے اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کوئی ولی غوث قطب، ابدال اس صحابی کا مقام پاسکتا ہے،ہرگز نہیں دوستو یہ۔ صحابی داتا علی ہجویری سے افضل ہے شیخ عبدالقادر جیلانی سے افضل ہے۔ شاہ نقشبند سے افضل ہے،شاہ چشت سے افضل ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ سے افضل ہے الغرض صحابہ کے بعد آنے والے تمام مومنین وصالحین سے افضل ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں ان بختوں سے جو صحابہ کرام کے مشاجرات کو بنیاد بناکر صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ عقل کے اندھو صحابی عمل سے نہیں بنا بلکہ صحابی مصطفی کی نظر سے بنا ہے۔ اس لیے جب بھی صحابہ کا ذکر ہوگا تو محبت سے ہوگا عقیدت سے ہوگا اور ادب سے ہوگا۔اسی لئے تو ہم کہتے ہیں!
کونین دے والی داگھربار بڑا سوہنا
سو رب دی مدینے دادربار بڑا سوہنا
صدیق، عمر، عثماں، حیدرتوں میں واری جاں
میرے کملی والے دراہریار بڑا سوہنا
آج لوگ کس دیدہ دلیری سے کہتے ہیں صحابہ کون تھے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ صحابہ کون تھے۔ اللہ نے جن کو اپنے نبی کی قربت کے لئے چنا۔وہ صحابہ تھے۔ دین کی سربلندی کے لیے جنہوں نے اپنا تن من دھن قربان کیا وہ صحابہ تھے۔ اللہ کے لئے جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑا وہ صحابہ تھے۔ جرات، بہادری استقامت وشجاعت کا پیکر صحابہ تھے۔ اللہ کی رضا میں پیٹ پر پتھر باندھنے والے صحابہ تھے جنہوں نے بت کدوں کو عبادت خانوں میں بدل دیا وہ صحابہ تھے جن کی اذانوں سے قیصر وکسریٰ کانپ اُٹھے وہ صحابہ تھے۔ جنہوں نے باغیوں کو اسلام کے قدموں میں لاکر کھڑا کیا وہ صحابہ تھے۔ جن کی رات عبادت میں گزرتی وہ صحابہ تھے جن کا دن جہاد میں گزرتا وہ صحابہ تھے جو آقا کے اشارہ ابرو پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتے وہ صحابہ تھے۔ بدر، خندق، تبوک، خیبر میں دین کی سربلندی کے لئے نکلنے والے صحابہ تھے اور سب سے بڑھ کر جن کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے امنواکما امن الناس اے قیامت تک آنے والو اگر اللہ کا قرب چاہتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہو تو پھر ایسے ایمان لائو جیسے میرے نبی کے صحابہ ایمان لے کے آئے۔ اس لئے یاد رکھیں صحابہ کے دشمنوں سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیںبلکہ یہ دشمنی اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے ایک موقع پر نبی علیہ السلام نے فرمایا جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو اسی طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ298-Aکو ملاحظہ فرمائیں جس میں واضح طور پر یہ لکھاuse of derogatory remarks etc holy personagesیعنی جو صحابہ کرام واہلبیت اطھار پر زبان طعن دراز کرے گا تو ایسے شخص کو جرمانے کے ساتھ قید کی سزا سنائی جائے گی اس لئے حکومت وقت اور اداروں کو چاہیے جو لوگ بھی وطن عزیز میں ان مقدس ہستیوں کی توہین کریں ان کے خلاف فی الفور قانونی کارروائی عمل میں لاکر انہیں نشان عبرت بنایا جائے میرے دوستو اہلبیت اور صحابہ کی ناموس پر پہرہ دینا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ دعا ہے اللہ ہمیں اہلبیت اور صحابہ کرام کی محبت میں زندہ رکھے اور اسی محبت میں موت نصیب فرمائے آمین وماعلینا الاالبلاغ المبین۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here