فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! جو لوگ اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ اور اس کے پیارے محبوبۖ کی رضا کے لئے وقف کردیتے ہیں تو ہر قدم پر کامیابیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں ان کی ہر بات پُر اثر ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کا نام اور کام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔ حضرت محدّث اعظم پاکستان شیخ الحدیث علامہ الحاج ابو الفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رضی اللہ عنہ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے تدریس کے میدان میں آپ رضی اللہ عنہ نے قدم رکھا تو بڑے بڑے محدّث اور مفکرّ آپ کے درس کی برکت سے پیدا ہوئے جو صرف شیخ الحدیث، مناظر، مبّلغ اور مدرّس بنے بلکہ بڑے بڑے اداروں کے مہتمم بھی بنے اور پوری دنیا میں آپ کے فیضان کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ہر ادارے میں آپ کے فیض یافتہ علمائے کرام بلاواسطہ یا بالواسطہ موجود دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں یہ سب اخلاصۖ للّٰہیت کی برکتیں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ درس وتدریس کو ترجیح دی آپ رضی اللہ عنہ کی تبلیغی سرگرمیوں میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں حاضر خدمت ہے۔ اور یہ بات یاد رہے کہ فیصل آباد میں آپ کی ظاہری زندگی مبارکہ کے تقریباً دس سال ہیں لیکن کام دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ صرف مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جھنگ بازار فیصل آباد پاکستان ہی پچاس سال میں بنی ہوگی کہ اس کے فلک بوس مینار اور بناوٹ کی خوبصورتی اور پختگی نے تو بڑے بڑے انجینئر لوگوں کو ششدرو حیران کر رکھا ہے کہ یہ نقشہ کہاں سے آیا اور اس کو کیسے بنایا گیا اہل حق کے لئے آپ کی زندہ کرامت یعنی ظاہر کرامت جو ہر کسی کو بلاتکلف نظر آئے یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ آپ اللہ کے بہت بڑے ولی تھے اور اخلاص سے لبریز تھے اور جس نے بھی آپ کی نسبت پائی وہ بھی اپنے وقت کا بڑا انسان نظر آیا اور یقیناً آپ کی تعلیمات بھی اہل حق کے لئے قابل عمل وکامیابی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ تقویر کا آغاز نہایت محبت کے ساتھ درود شریف پڑھنے سے فرماتے۔ عربی خطبہ پڑھنے کے بعد انتہائی پُرسوز اور عشق ومحبت سے ڈوبے ہوئے الفاظ انداز میں حاضرین سے فرماتے ”تمام احباب نہایت ہی اخلاص، ذوق وشوق اور الفت ومحبت کے ساتھ آقا ومولیٰ مدینے کے تاجدار، احمد مختار، محبوب کبریا، سرور انبیائ، شہ ہر دوسرا، شب اسرای کے دولہا، عرش کی آنکھوں کے تارے، نبی پیارے ہمارے، نور مجسم، شفیع معظم، نبی محترم، رسول محتشم، سرکار دوعالم حضرت محمد رسول اللہۖ کے دربار عالی میں تین تین مرتبہ جھوم جھوم کر ہدیہ درود وسلام پیش کریں۔ اس کے بعد آپ خود اور تمام حاضرین مجلس درود شریف پڑھنے میں محو ہوجاتے اور درود وسلام کے نغمات گونج اٹھتے۔ آپ کی تقریر اتنی سادہ اور عام فہم ہوتی کہ ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ دیہاتی بھی آپ کی بات سمجھ لیتا۔ اپنا علم جتانے اور حاضرین پر رعب جمانے کے لئے دقیق نکتے بیان کرنے کی کوشش نہ فرماتے۔ تقریر کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ کلمہ طیبہ سے بھی حیات النبیّ پر استدلال قائم کرلیتے۔ فرمایا کرتے کہ کلمہ طیبّہ کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت محمد مصطفیٰ علیہ التحیّة والشّائو اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرمۖ زندہ بھی ہیں اورر منصب رسالت پر فائز بھی ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوں تو یوں کہا جاتا کہ ”کان محمد رسول اللہ” یعنی محمد اللہ کے رسول تھے مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب وزیر ہیں، کمشنر ہیں یا ایس پی ہیں۔ تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ زندہ ہیں اور اس منصب پر فائز ہیںاگر وہ صاحب فوت ہوچکے ہیں یا ریٹائر ہوچکے ہوں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں صاحب وزیر ہیں کمشنر ہیں یا ایس پی ہیں بلکہ تھے کا لفظ آئے گا کہ فلاں، فلاں عہدہ پر فائز تھے۔ تم جو شخص حیات النبیّۖ کے مسئلہ کا منکر ہے اسے اپنا کلمہ بھی نیا بنانا پڑھے گا حوالہ ہمیشہ اصل کتاب دیکھ کر پیش فرماتے۔ اور اپنے تلامذہ کو بھی یہی تاکید فرماتے کہ جب تک اصل کتاب خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو۔ اس کا حوالہ نہ ہوا جو بات آپ نے کی تو پھر جھوٹ بھی ہوگا اور شرمندگی بھی اُٹھانا پڑے گی۔ ایک مرتبہ آپ جمعہ کے خطبات میں مسلسل اختیارات مصطفیٰۖ پر بات فرماتے رہے۔ اس سلسلے میں آپ ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ پیش فرمانا چاہتے تھے کہ حضور علیہ السّلام نے ایک صحابی اس شرط پر ایمان قبول فرما لیا کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا۔ یہ حدیث مبارکہ امام اہل سنت احمد رضا رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب الامن والعلیٰ میں مسند امام احمد بن جنبل رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھی ہے۔ امام اہلسنت رضی اللہ عنہ کی دیانت وتقویٰ پر اعتماد کرکے اس حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا جاتا تو اس میں عیب کی بات نہ تھی۔ لیکن امام اہل سنت رضی اللہ عنہ پر کلی اعتماد کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے اصل کتاب مسند امام، احمد رضی اللہ عنہ دیکھنا ضروری خیال فرمایا۔ اصل کتاب دیکھنے کے بعد آپ نے اسے بیان فرمایا: آپ رضی اللہ عنہ کی تقریر میں لطیفہ بازی، سوقیانہ انداز، عامیانہ باتیں، پھبتیاں اور تمسخر نہیں ہوتا تھا۔ اصلاح عقائد کے ساتھ ساتھ اصلاح اعمال بھی فرماتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں صحیح معنوں میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭