قارئین محترم! نیکوں کے موسم بہار رمضان المبارک کی آمد ھے۔ غلطیوں کوتاہیوں اور گناہوں سے لدی ،سوکھی ٹہنیوں پر رحمت و برکت کے پھول کھلنے والے ہیں ۔رحمان کے بندے اجر وانعام کی آس و امید کے منتظر ہیں۔اور(خدائے)رحمان کے (مقبول)بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ)لوگ(ناپسندیدہ)بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے)ہیں ۔(الفرقان) عاجزی و انکساری انسان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت وصف ہے اور یہ وصف اس وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان اپنے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس اُجاگر کرلیتا ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں انسان کا احساسِ برتری، احساسِ عاجزی میں بدل جاتا ہے۔ معرفت ِ الٰہی انسان کو عاجزی وانکساری کا پیکر بناتی ہے۔اس حقیقت میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ معرفت و قربت الٰہی میں بڑا بلند و بالا مرتبہ و مقام صرف اور صرف رسول اللہ ۖ کو حاصل ہے۔ اسی بنا پر اللہ کی بارگاہ میں مقامِ بندگی اور مقامِ انکساری کا جوامتیاز و اعزاز آپ ۖ کو حاصل ہے، کوئی اور فرد بشر اس میں شریک نہیں ہے۔ رسول اللہ ۖ اعلی و ارفع مقام پر فائز تھے، اس کے باوجود آپ ۖ ساری حیات میں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رہے۔ آپ ۖ نے تکبر و رعونت اور مطلق العنان احساسِ برتری سے اپنے کردار کو مبرا و منزہ رکھا ہے۔ اسی لئے آپ ۖ نے اپنی اُمت کو تواضع و انکساری اور عاجزی کی تعلیم دیتے ہوئے اشاد فرمایا:جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے عاجزی کرتا ہے، باری تعالیٰ اسے سربلند کرتا ہے اور جو اس پر اپنی برتری جتاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پست کرتا ہے۔عظمت و کبریائی اور سروری فقط رب کو زیبا ہے۔ بندے کی بندگی کا زیور عاجزی و انکساری ہے۔ حدیث قدسی ہے: کبریائی میری چادر ہے۔ عاجزی و انکساری میں انسانی عظمت مضمر ہے جبکہ تکبر و استکبار میں انسان کی تباہی و بربادی پوشیدہ ہے۔ سفرِ زیست میں جب بھی انسان تفوق اور استکبار کا شکار ہونے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنی زندگی کو صحیح سمت دینے کیلئے رسول اللہ کی حیات ِ مبارکہ اور سیرت سے رہنمائی حاصل کرے۔عاجزی و انکساری کے حصول میں حائل رکاوٹیں انسانی زندگی میں کچھ عوامل اور اسباب ایسے پیش آتے ہیں جو انسان سے عاجزی اور انکساری کا وصف چھین لیتے ہیں اور اس میں تکبر و استکبار اور غرور و رعونت پیدا کردیتے ہیں ۔ ذیل میں ان ہی میں سے چند عوامل کا تذکرہ کیا جارہا ہے: (خوشحالی) عاجزی و انکساری کی راہ میں سب سے بڑا عامل انسان کا خوشحال ہوجانا ہے۔ یہ خوشحالی انسان سے عاجزی و انکساری کا وصف چھین لیتی ہے۔ مگر ہمارے سامنے رسول اللہ ۖ کی وہ حیاتِ مبارکہ ہے جو ہمیں زندگی کے ہر حال اور زندگی کے ہر موڑ پر سنبھالتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے شاہی زندگی پر عجز و انکسار کی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ ۖ اپنی زندگی کو خوشحال ہی خوشحال بنانا چاہتے تو اس کا عالم یہ ہوتا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں ، آپ نے فرمایا: اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں ۔اسی طرح رسول اللہ ۖ کو باری تعالی نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی دنیوی نعمت اختیار کرنے کا موقع بھی دیا تو آپ ۖ نے بادشاہت پر اللہ کی بندگی اور عبدیت کو ترجیح دی۔ آپ ۖ سے فرمایا گیا: اگر آپ چاہیں تو نبی عبد بنیں اور اگر آپ چاہیں تو بادشاہ نبی بنیں ۔ تو اس سوال اور اختیار کے جواب میں آپ ۖ نے عرض کیا: اے میرے رب میں نبی عبد(بندگی والا نبی)بنوں گا۔
جب ہم رسول اللہ ۖ کی ذاتِ اقدس میں عجزو انکسار کے یہ مظاہر اور نمونے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں باری تعالی کی نوازشات کی رم جھم بڑھتی ہے توں توں آپ ۖ کی عاجزی و انکساری میں بھی مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔واقعہ معراج میں باری تعالی نے آپ ۖ سے پوچھا کہ میں آپ کو کس لقب سے مشرف کروں ؟ تو آپ نے عرض کیا:
مولا مجھے اپنی ذات سے نسبت ِ عبدیت کے ساتھ منسوب فرما۔
اب کائناتِ انسانی کا اس سے بڑا منصب، مقام اور رتبہ و اعزاز نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہے۔ واقعہ معراج کے موقع پر جس لفظ کو معراج دی گئی، وہ لفظِ عبدیت ہے۔ مقامِ عبدیت کا کمال اور عروج سراپا عاجزی اور انکساری ہے۔
(فتح و کامیابی)
دوسرا بڑا عامل جو ہمارے وجود میں پنپنے والی عاجزی و انکساری پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ فتح و کامرانی کی منزل کو پالینے کے بعد کا رویہ ہے جس کے بعد بندہ اپنے ماتحتوں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔ انسان عام حالات میں عجزو انکسار ی اختیار کررہا ہوتا ہے مگر دشمن پر فتح و کامیابی اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے موقع پر وہ عاجزی و انکساری کا راستہ چھوڑ کر تکبر و رعونت اور طاقت و قوت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے دشمن اور فریقِ مخالف پر ظلم و سرکشی کی انتہا کردیتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کے اس شاہانہ اور حاکمانہ مزاج اور رویے کا اظہار یوں کرتا ہے:
بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کر ڈالتے ہیں اور یہ (لوگ بھی)اسی طرح کریں گے۔ (النمل)
انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ بادشاہوں نے فتح و کامرانی کے نشے میں لوگوں کے سروں کے مینار بنائے ، قتل و غارت گری کی انتہا کردی اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگائے مگر رسول اللہ ۖ کی سیرت و اسوہ نے اس موقع پر بھی انسانوں کو عاجزی و انکساری کا پیغام دیا ہے کہ فتح و کامرانی پر بھی اللہ کے حضور شکر گزار بنو، نہ کہ انسانوں پر اظہارِ فخر کرکے ان کا جینا دوبھر کردو۔ اس لئے کہ شکر گزاری سے انسانی طبیعت میں عجزو انکسار آتا ہے۔ فتح و کامرانی انسانی زندگی میں وہ موقع ہوتا ہے جب انسان تکبر و استکبار کی رو میں بہہ جاتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم شروع کردیتا ہے۔رسول اللہ ۖ کی سیرت کا یہ گوشہ بھی ہماری شخصیت کو سنوارتا ہے کہ جب باری تعالیٰ نے آپ ۖ کو فتح مکہ کے موقع پر کامیابی و کامرانی سے نوازا اور اپنے دشمن پر غلبہ و تفوق دیا تو آپ ۖ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ المکرمہ میں داخل ہوئے لیکن آپ ۖ کا رویہ فاتح بادشاہوں اور حکمرانوں کا نہ تھا بلکہ اللہ کے شکر گزار بندوں کا تھا۔ آپ سراپا پیکر ِ عجزو انکساری اور اللہ کی بارگاہ میں ہر لحظہ اور ہر لمحہ شکر گزار بنے ہوئے تھے۔ اس شکر گزاری کے آثار آپ کے وجودِ اقدس پر بڑے ہی نمایاں تھے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ۖ کے مکہ معظمہ میں داخلے کی منظر کشی یوں کی ہے:جب آپ ۖ نے مکہ کے فتح ہونے کا منظر اور عزت و شان دیکھ لی توبلاشبہ رسول اللہ ۖ کا سر انور عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور اس قدر جھکا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی ریش مبارک کے بال کجاوے کو چھولیں ۔
رسول اللہ ۖ کی سیرت کا یہ پہلو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہماری زندگی میں جب بھی کامیابی و کامرانی کے لمحات آئیں تو ہم اپنی انسانیت اور عبدیت کو گم نہ کریں ۔ ہمارے اندر کا حیوان بے قابو نہ ہو جائے، ہم اپنی خوشی میں دوسروں کو غم نہ دیں ۔ دوسرے افراد کا جینا حرام نہ کریں ، اپنی کامیابی میں اندھے نہ ہوں بلکہ ہم سیرت الرسول سے پیغامِ حیات لیتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار بن جائیں تاکہ اس نعمت کے ذریعے اللہ کی مزید نعمتوں کے مستحق بن جائیں ۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ ہے کہ:
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر(نعمتوں میں )ضرور اضافہ کروں گا۔(ابراہیم)
اندھی محبت و عقیدت: انسانی وجود سے عاجزی اور انکساری کو چھیننے والی ایک اور چیز اندھی محبت و عقیدت بھی ہے۔ انسان کے کسی وصف کی بنا پر دوسرے انسان اس کو بے پناہ محبت اور بے مثال عقیدت دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو قابلِ احترام اور مستحقِ تکریم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس جب کبھی اہلِ محبت اور اہلِ عقیدت کے علاوہ اس کا واسطہ دوسرے انسانوں سے پڑتا ہے تو وہ اس کی اس طرح قدر دانی نہیں کرتے اور عقیدت و محبت نہیں دیتے تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ اس کا مزاج اب ان رویوں کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا ۔ ایسے انسان کی طبیعت کا معاملہ بھی بچے کی طبیعت جیسا ہوجاتا ہے مگر انسانی معاشرے کا یہ عمومی مزاج، مروجہ اسلوبِ حیات اور عادتِ جاریہ بھی سیرت الرسول ۖ کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے۔
دنیائے محبت و عقیدت میں جس قدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ۖ کی عزت و تکریم کی ہے، جس قدر آپ ۖ کی ذات سے عقیدت و محبت کی ہے اور جس قدر والہانہ عشق و وارفتگی کا تعلق آپ ۖ سے رکھا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ۖ کی ہر ادا پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور اس عمل کو وہ اپنا کمال سمجھتے تھے۔ وہ ہر اس چیز پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے تھے جس کا ذرا سا بھی تعلق شاہ خوباں کے ساتھ ہوتا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپ ۖ کے ساتھ ادب و تعظیم اور عقیدت و محبت کا ایسا رشتہ قائم تھا کہ جس کی مثال اس وقت کی موجود دنیا میں نہ تھی حتی کہ ظہور اسلام کے بعد سے اب تک انسانی دنیا میں اس کی کوئی نظیر اور کوئی مثال قطعا نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم کا اس حد تک ادب و احترام کرتے کہ آپ ۖ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور بے حد تعظیم کی وجہ سے آپ ۖ کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ساری محبتیں اور عقیدتیں رسول اللہ ۖ کی عاجزی اور انکساری میں اضافہ کرتی رہی ہیں ۔ جس قدر آپ ۖ کو اللہ کی نعمتیں اور اس کا فضل زیادہ سے زیادہ میسر آتا، اسی قدر آپ ۖ کا عجزو انکسار اور آپ کا عملِ شکر بڑھ جاتا تھا اور آپ پہلے سے زیادہ اپنی عبادت میں اضافہ کردیتے اور ہر نعمت کو اللہ کی ذات کی طرف منسوب کرتے۔
() صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت: رسول اللہ ۖ کو باری تعالی نے عاجزی و انکساری کی یہ شان عطا کی کہ باوجود اس کے کہ آپ ۖ امام الانبیا ہیں ، آپ ۖ پر وحی کا نزول ہوتا ہے، ہر موقع پر آپ ۖ کو اللہ کی بارگاہ سے راہنمائی میسر آتی ہے مگر آپ ۖ مختلف معاملات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کرتے تھے اور ان کی رائے اور مشورے پر عمل بھی کرتے تھے۔
غزوہ احد کے موقع پر آپ ۖ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کی کہ جنگ شہر کے اندر رہتے ہوئے لڑی جائے یا باہر جاکر لڑی جائے۔ آپ ۖ کی رائے شہر کے اندر رہتے ہوئے جنگ لڑنے کی تھی مگر آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی۔
غزوہ بدر کے موقع پر آپ ۖ نے فرمایا: اے لوگو مجھے مشورہ دو۔ وہ مشورہ اس بات پر تھا کہ کفار کے قافلے کا تعاقب کیا جائے یا ان کے لشکر کا مقابلہ کیا جائے۔ اسی طرح میدان بدر میں لشکر اسلام ایک جگہ اتر گیا اور وہیں پڑاو کرلیا۔ حضرت حباب بن منذر نے عرض کیا: یارسول اللہ اس جگہ کا انتخاب اللہ کا حکم ہے یا آپ کی تدبیرِ ذاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: میری رائے ہے۔ عرض کیا: یارسول اللہ ! جہاں پانی زیادہ ہے، جنگی نقطہ نظر کے مطابق وہاں پڑاو کرنا زیادہ بہتر ہے۔ رسول اللہ ۖ نے اسلامی لشکر کو حضرت حباب بن منذر کی رائے پر عمل کرنے کا حکم دیا۔
() اصول و قانون کی پاسداری: رسول اللہ ۖ کی ذاتِ اقدس کو باری تعالی نے عاجزی و انکساری کی وہ شان عطا کی کہ آپ ۖ نے کبھی خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھا اور کبھی بھی آپ نے تکبر اور سرکشی کو اختیار نہیں کیا۔ آپ قانونِ اسلامی کو سب انسانوں کے لئے مساوی سمجھتے تھے اور کسی بھی طاقتور کو قانون سے بالا نہیں ہونے دیتے تھے۔ تاریخ میں قانون ہمیشہ طاقتوروں کا محافظ رہا ہے اور کمزوروں کا حاسب و محتسب رہا ہے۔ لیکن آپ نے اسلامی ریاست میں حاکم اور اہلِ ایمان کی جانِ ایمان ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھا اور ہمیشہ قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا ،حالانکہ آپ ۖ قانون کے شارح بھی تھے اور شارع بھی تھے۔
خطبہ حج الوداع میں لوگوں کو جو قانون اور ضابطہ دیا، سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کا اعلان یوں کیا:
خبردار زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور زمانہ جاہلیت کے ایک دوسرے پر تمام خون پامال ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون معاف کرتا ہوں ۔ وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے۔ وہ بنو سعد میں دودھ پیتا بچہ تھا جسے ہذیل نے قتل کردیا تھا اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود پامال کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے سود کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں ، وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، ان کا تمام سود پامال کرتا ہوں
رسول اللہ ۖ نے اپنی سیرتِ اقدس سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جو قانون نافذ کرو اس کی ابتدا اپنی ذات سے کرو۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو قانون سے بالاتر نہ سمجھو اور کسی بھی عہدہ و منصب کو قانون سے برتر نہ سمجھو۔ قانون سب کے لئے یکساں ہے اور ہر کسی پر اس کا احترام کرنا واجب ہے۔رسول اللہ ۖ کی اس سیرت اور اسوہ حسنہ کا یہ پیغام آج ہمارے معاشرے کے بڑوں ، چھوٹوں ، طاقتوروں ، کمزوروں ، حکومت کے اہلکاروں ، اداروں کے سربراہوں ، افسروں ، ملازموں اور عام لوگوں سبھی کے لئے ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں عاجزی و انکساری کا خوبصورت وصف پیدا کریں۔
عقلمند و دانا شخص ہی عاجزی کو اختیار کرتا ہے، اس لیے کہ برگ و بار اورپھولوں ،پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہی زمین پر جھکی ہوتی ہے۔زندگی انتہائی مختصر اور برف کی مانند پگل رہی ہے۔ جو سانسیں مالک کائنات نے عطا کی ہیں ۔ نہیں معلوم وہ کب بندہوجائیں۔اے رحمان و رحیم تو ہماری مدد فرما تجھ سے بہتر کوئی مددگار نہیں۔ دلوں میں محبت اور صلہ رحمی پیدا فرما۔تو ہماری حفاظت فرما تجھ سے بہتر کوئی محافظ نہیں تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا تجھ سے بہتر کوئی رہنمانہیں۔قیامت کے دن ہمارا پردہ رکھنا تجھ سے بہتر کوئی رازدار نہیں یہ دعا ہمارے ماں باپ ،ہمارے بہن بھائی ۔ہمارے خاندان۔دوست احباب اور تمام لوگوں کے حق میں قبول فرما۔اے مالک ارض و سماں، اے خالق و مالک ،اے واحد القہار ۔ اے پالنہار، اے بادشاہوں کے بادشاہ ۔ تو دلوں کے حال جانتا ھے۔ ھمارے والدین کی مغفرت فرما ۔ ھماری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں پر صرف نظر فرما۔ تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں۔بے شک تجھ سے بہتر کوئی سننے والا نہیں۔ کیونکہ تو رحمان اور رحیم ہے۔
٭٭٭