تاریخی طور پر امریکہ اور پاکستان بظاہر مضبوط اتحادی رہے ہیں لیکن در اصل یہ اتحاد امریکی مفادات کا مرہون منت تھا۔ اس میں کم از کم میں امریکہ کو غلط نہیں کہوں گا کیونکہ عالمی شطرنج میں تمام ممالک اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں اور ظاہر ہے امریکہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ جیسے جیسے امریکہ کے مفادات تبدیل ہوئے ویسے ویسے پاک امریکہ اتحاد بھی متاثر ہوتا گیا۔ چین جیسی طاقت کے لیے امریکہ کو پاکستان سے زیادہ بھارت اپنے مفاد میں نظر آیا۔ موجودہ عالمی دور تیز تبدلیوں کا دور ہے۔ کئی حصوں میں منقسم دنیا متضاد اقدار، لسانی اور مذہبی سیاست اور اپنے اپنے مفادات کا شکار ہو کر باہمی اختلافات کا شکار ہے۔ کہیں تاریخ کو دوبارہ نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو کہیں پرانی روایات کی نئی نئی تاویلیں اور تعریفیں تلاش کی جا رہی ہیں ۔ طاقت کے نشے میں بدمست ممالک نئی روایات رقم کر رہے ہیں۔ ان کے یہاں سفارت کاری کا مطلب اب ہاں میں ہاں ملانا رہ گیا ہے اور اگر کوئی ملک آپ کی ہاں میںہاں نہیں ملاتا تو وہ آپکا مخالف ہے۔ غزہ کی صورتحال، ایران پر اسرائیلی حملے، بھارت کی پاکستان کو دبانے کی ناکام کوشش، اس دوران امریکہ بہادر کا رویہ ، یہ سب آپس میں جڑا ہوا او ر ایک بڑی کہانی کے پلاٹ کے حصے ہیں ۔ ان کے بڑے کھلاڑیوں میں سب سے پہلے امریکہ ہے ۔ اس کے بعد یورپی یونین جو بظاہر تو اس وقت ہر معاملے میں امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے لیکن در پردہ وہ امریکہ سے آزادی بھی چاہتے ہیں۔ اگر چین درمیان میںنہ ہوتا تو شاید یورپ اور امریکہ اب تک کھل کر آمنے سامنے آ چکے ہوتے لیکن اس وقت دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں کیونکہ چین ان دونوں طاقتوں کو چیلنج کر کے برابر کی ٹکر دے رہا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو اس کشمکش میں چوتھی بڑی طاقت سمجھ رہا تھا لیکن پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد اس کے غبارے میں سے ہوا نکل چکی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ ، اسرائیل اور انکے حواریوں نے غلط گھوڑے پر پیسے لگا دیے تھے اور انکا گھوڑا جب عملی میدان میں اترا تو پاکستان کے سامنے ٹٹو ثابت ہوا۔ 6 مئی کو بھارت نے جو حرکت کی تھی ا س میں ظاہر ہے اسے اسرائیل کی ہر قسم کی مدد کے ساتھ ساتھ امریکہ کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ خدا کی نصرت، عوام کی ہمت اور پاک افواج کی شجاعت ، اور پاکستان کے عزم اور صلاحیت کے بارے میں بھارت اور اسرائیل کے اندازے بالکل غلط ثابت ہوئے۔ بھارت بھی ضرورت سے زیادہ غلط فہمی کا شکار تھا۔ انکا خیال تھا کہ جنگ صرف کاغذ پر لگائے گئے حساب کتاب کا نام ہے کہ کونسا جہاز زیادہ طاقتور ہے ۔ وہ بھول گئے تھے کہ جہاز میں پائلٹ بھی بیٹھے ہوتے ہیں ا ور افواج کے جوانوں اور افسران کی ہمت ، حوصلے اور شجاعت بھی بہت معنی رکھتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کسی طور بھی چین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چین وہ واحد آہنی برادر ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، اس وقت بھی جب پاکستان میں چین کے کوئی بہت زیادہ ذاتی مفادات نہ ہوں۔ اب تو وقت اور عالمی صورتحال نے پاکستان اور چین کے مفادات کو بھی ایک ہی کشتی میں سوار کروا دیا ہے۔ اس مسلسل بدلتی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان ایک متوازن اور آزاد پالیسی اختیار کرے۔ ہمیں اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دینا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں استحکام اور باہمی اعتماد کو بحال کرنے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیققت ہے کہ امریکہ کو چین کے ساتھ قربت کی بنا پر پاکستان چین کے خلاف امریکی مفادات کا مخالف ہی نظر آئے گا۔ چین کے ساتھ سٹریجٹک شراکت داری کو مزید مستحکم کرنا بھی پاکستان کی بقا کے لیے اہم ہے اور چین کے ساتھ کئی دہائیوں پر مشتمل دوستی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ بھارت جو اپنے خوبوں میں اپنے آپ کو خطے کا بدمعاش بنا چکا تھا اور عالمی طاقت کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے پر تول رہا تھا کو پاکستان ہمیشہ دشمن ہی نظر آیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا کیونکہ اسے پاکستان ہمیشہ اپنی چودراہٹ اور علاقائی بدمعاش بننے کی خواہش کے لیے خطرہ ہی لگا ہے۔ ساتھ ہی بھارت ( خاص طور پر اسکی موجودہ انتہا پسند حکومت) کبھی بھی اسلام دشمنی کو اپنی سوچ اور اپنے لہو سے نہیں نکال سکتا۔ بھارتی خوش فہمی کا شکریہ جس کی وجہ سے آج کا پاکستان عالمی اور علاقائی سطح مزید فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ بنگلہ دیش سے کئی دہائیوںکے بعد ہمارے تعلقات نہ صرف نارمل ہیں بلکہ دوستی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ بھی تعلقات مزید بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ افغانستان میں امن کے ساتھ ساتھ بھارت کے اثر رسوخ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ کمی متوقع ہے۔ ہمارے لیے اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسی صورتحال سے بچیں جو ہمیں کسی اور ملک کا آلہ کار بنا دے ۔ اسکی بجائے ہمیں تمام معاملات میں ملکی مفادات کو اولیت دینی ہو گی۔ بلا شبہ اوپر بیان کی گئی صورتحال پیچیدہ لگتی ہے لیکن نئی عالمی صورتحال میں جہاں پاکستان کے لیے بہت سے چیلنجز ہیں وہاں بڑے بڑے مواقع بھی ہیں۔ جغرافیائی اہمیت، نوجوانوں آبادی اور قدرتی وسائل کی فراوانی کبھی بھی پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہونے دے گی۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو دانشمندی اور دور اندیشی کے ساتھ ترتیب دیں اور ان مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں جٹ جائیں۔ اسکے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے درمیان موجود علاقائی، لسانی مذہبی سمیت تمام اختلافات کو ختم کرنا ہو گا تاکہ ہم ایک متحد ، یک جا اور مضبوط قوم بن کر عالمی افق پر ابھریں۔ بظاہر اسلامی امہ کا تصور صرف تصور بن چکا ہے لیکن کوئی وجہ نہیں کہ دینا کی پہلی اور اب تک واحد جوہری طاقت، 250 ملین کی آبادی ، اور دنیا کا چھٹا بڑا فوجی نظام رکھنے والا ، دوسرا بڑا اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان ترکی، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے اہم اسلامی ممالک کے ساتھ ملکر مسلم امہ کے تصور اور او۔ آئی۔سی کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ایسا متبادل جو صرف اقتصادی اور فوجی طاقت کا مرکز نہیں بلکہ اخلاقی اقدار اور انسانیت کی سر بلندی کا روشن مینار بھی ہو ۔ جن لوگوں کو میری یہ باتیں دیوانے کا خواب لگ رہی ہیں ، وہ یہ نہ بھولیں ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ امریکہ تاج برطانیہ کا غلام تھا۔ امریکی قوم نے بھی ایسا ہی دیوانہ خواب دیکھ کر اسکی تعبیر کا پیچھا شروع نہ کیا ہوتا تو آج بھی وہ غلام ہی ہوتے۔ ایک خود دار اسلامی دنیا جس کے چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات ہوں۔ جو دنیا کو تجارت ، مالیات ، دفاع اور منظم اور مربوط مواصلات کے ذریعے سے قریب لائے ۔ فوجی طاقت ، دہشت گردی کے خلاف جنگ (ایسی دہشت گردی جس کی کوئی متفق اور تسلیم شدہ تعریف ہی آج کی دنیا میں موجود نہیں)کی بجائے امن اور خوشحالی کی بنیاد پر حقیقی سفارتکاری کے ذریعے دنیا کو ایک متبادل پیش کرے ۔
٭٭٭













