پاکستانی اور ترکی میں ایک جان دوقالب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر کے لوگ اپنی ضرورت کا اظہار اختصار کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں، مثلا”اُنہیں اپنے ریسٹورنٹ کا نام رکھنا ہوتا ہے تو فورا”وہ شیرازی یا ڈیرہ وغیرہ رکھ کر جان چرا لیتے ہیںلیکن ترکشوں کو یہ نہیں بھاتا ، وہ اپنے ریسٹورنٹ کے نام کو ایک لائن سے کم میں رکھنے کے عادی نہیں، میں استنبول میں ایک ریسٹورنٹ کا نام چالیس گز میں پھیلا ہوا دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، وہ ” سی گرسی بہاٹِن ٹان ٹنی سِردان ممبار” تھا جس کے ایک لفظ سے بھی میں واقف نہ تھا بہرکیف ہم لوگ رات کا کھانا کھانے وہاں چلے گئے لیکن ریسٹورنٹ کے مالک سے جو اپنے دادا کی دوسری جنگ کی کہانی سنانے کیلئے بے چین تھے اُنہیں اُس سے باز رکھاکیونکہ مجھے پتا تھا کہ شاید وہ ایک سال میں بھی ختم نہ ہو۔شہر استنبول کا مقدر ہمیشہ سے ہی ایک دوڑتا ہوا شہر قرار پایا ہے حتیٰ کہ اِس کی اِسی فطرت کی وجہ کر لوگوں کو بے گھر و سامان ہونا پڑتا ہے، میں بھی جب 1973ء میں اِس شہر کی دھول چاٹ رہا تھا تو ایک شام یہ سوچ کرہوٹل سے باہر ٹہلنے کیلئے نکل گیا کہ کون ہوٹل کو بھولتا ہے کس ایڈیٹ کو ہوٹل کا نام و پتہ لکھ کر اپنی پاکٹ میں محفوظ رکھنا چاہیے تا کہ اگر قسمت پھوٹ پڑے تو کسی سے پوچھ لے لیکن ترکش زبان کے کسی نام و پتہ کا یاد رکھنا بھی کسی گہرے سمندر میں کسی چھپے ہوئے خزانے کے ڈھونڈنے کے مترادف ہے، واپسی کے وقت میں پرانے استنبول کی گلیوں کی خاک چھانتا رہا، لوگوں سے پوچھتا رہا کہ بھائی کیا اِس شکل کے کسی ہوٹل کو جانتے ہو، رات کا آخری پہر نمودار ہورہا تھا ، لوگ اپنی دکانیں بند کرکے گھر جارہے تھے یا چلے گئے تھے، مجھے راستے میں سوئے ہوئے لوگوں کوجگا کر پوچھنا پڑتا تھا لیکن ہمیشہ مایوسی قدم چومتی تھی، ایک پولیس والا جو رائفل لے کر ایک کونے میں اونگھ رہا تھاجب اُسے جھنجوڑ کر پوچھا تو غصے میں اُس نے جواب دیا کہ نو اِنگلش لیکن 73 اور آج کے استنبول میں یہی فرق ہے ، کم از کم آج اِس شہر کے تمام باسی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتے اور سمجھ لیتے ہیں لیکن پرانے استنبول کی گلیاں اتنی پراسرار ہیں کہ میں اپنے ہوٹل سے باہر قدم رکھنے سے بھی خوفزدہ رہتا ہوں ، میرے لائو لشکر جی پی ایس ساتھ لئے میری نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ 1973 ء کا استنبول بھی مجھے یاد ہے جب یورپ سے آئی ہوئی بسیں سینکڑوں سیاحوں کو استنبول کی شاہراہوں پر دھکم دھکی کرکے بالآخر دھکیل دیتی تھیں اور وہ وہاں کی دکانوں پر اِس طرح حملہ آور ہوتے تھے جیسے جیل سے فرار ہوئے ہوں، مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ وہ چیزیں اُن ہی کے ممالک فرانس، جرمنی یا انگلینڈ سے آیا کرتی تھیں۔ ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ یورپین کو ترکی سے خریدی ہوئی چیزیں اتنی زیادہ پسند ہیں جیسے وہ شیکسپیئر کا ڈرامہ دیکھ رہے ہوں، یورپین کا ترکی سیاحت کیلئے آنا ختم نہیں ہوا ہے، بس فرق اتنا ہے چالیس سال قبل وہ انفرادی طور پر بسوں میں آیا کرتے تھے اور اب وہ ٹولیوں کی شکل میں آیا کرتے ہیں، چالیس ،پچاس گوروںکی ایک جمگھٹ کو ایک گورا یا گوری رہنمائی کرتی رہتی ہے، اُسکے ہاتھ میں چھڑی میں ایک جھنڈا لہرا رہا ہوتا ہے جسے دوسرے سارے گورے پیچھا کرتے رہتے ہیں۔چالیس اور پچاس سال کی مدت میں ایک جدید استنبول رونما ہوا ہے جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، پچاس میل کے ایک احاطہ میں بلند و بالا بلڈنگوں کا ایک لامتناعی سلسلہ وجود میں آگیا ہے، اُن بلڈنگوں میں ٹرمپ ٹاور کی دوبلڈنگیں بھی امریکا اور ترکی کی دوستی کی منہ بولتی تصویر یں ہیں، میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ کئی بلڈنگین میرے بیٹے کی کنسٹرکشن کمپنی نے بنائی ہیں جو آرکیٹکٹ کی نادر نمونہ ہیں،جدید استنبول جس میں کم ازکم پانچ ہزار کے قریب آسمان سے چھوتی ہوئی بلڈنگیں لوگوں کو دیکھتے ہی رہنے پر مجبور کرتی ہیں اورترکی کی ترقی کی پہچان ہیں جبکہ پرانا استنبول تا ہنوز لاہور کی گلیوں کی طرح صحیح و سالم موجود ہے لیکن ترکی کا ایک دوسرا شہرانٹلیا جس کا ذکر نہ کیا جائے تو بڑ ی بدانصافی ہوگی، یہ شہر جدید ترکی کا ایک شاہکار ہے جہاں رہائشی اپارٹمنٹ کمپلکس اِس دلکشی کے ساتھ نظر آتے ہیں کہ اُن سے نظر اوجھل کرنے کا دِل نہیں چاہتا،اپارٹمنٹ کمپلکس کے بیرونی حصے کو اِس خوبصورتی سے رنگ و روغن کیا گیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی،انٹلیا شہر کے اِن اپارٹمنٹ کی تعداد ایک یا دونہیں بلکہ لاکھوں میں ہے اور ایک اندازے کے مطابق اِن کا ظہور میں آنا ترکی کے ہاؤسنگ مسئلے کو حل کردیا ہے۔ انٹلیا بحیرہ روم کا ایک سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا کے دوسرے شہروں کا انٹلیا سے مقابلہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اِس شہر میں پھیلے ہوئے سبزہ زار اِس کی صاف و شفاف سڑکوں کو دیکھ کر جب پاکستان یاد آتا ہے تو شرم سے نظریں جھک جاتی ہیں،ہم لوگوں نے انٹلیا میں ہفتوں قیام کیا اور اِس کے ساحلوں سے لطف اندوز ہوتے رہے،لیکن ترکی کا بعض شعبہ ایسا ہے جس کا مقابلہ امریکا سے کیا جاسکتا ہے ، اُس میں ٹرانسپورٹ پیش پیش ہے۔ آپکو کہیں بھی جانا ہو وہاں تیز رفتار سب وے ٹرین آپ کے لئے حاضر ہے جو ہر چند منٹ بعد بلکہ نیویارک سے بھی کم وقفے میںآپ کو آپ کی منزل تک پہچادیتی ہے، سب وے ٹرین میں جرائم کا کوئی نام و نشان تک موجودنہیں البتہ ہر اسٹیشن پر میٹرو ٹرین کا ایک اہلکار تعینات رہتا ہے جو اِس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ مسافر ٹکٹ خرید کر سفر کر رہے ہیں، میٹرو ٹرین آپ کی تمام منزل کی ساتھی ہے، آپ استنبول کے تاریخی مقامات مثلا” ّآیا صوفیہ مسجد یا بلو مسجد جانا چاہتے ہوں یا ائیر پورٹ میٹرو ٹرین وہاں تک آپ کو پہنچانے کی ذمہ دار ہے ، صدر اردوان کی حکومت نہ صرف ایک چست و چابکدست سب وے ٹرین کی سہولت کو نبھارہی ہے بلکہ عوام کی سہولت کیلئے استنبول شہر میں بسیں، ٹرام وے بھی دستیاب ہیںجو حقیقی معنوں میں عوام کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کردیا ہے۔













