جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے،کرکٹ ہر کسی کا پسندیدہ گیم رہا ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب ریڈیو ہی ایک ذریعہ تھا جاننے کا کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔1957کی بات ہے کہ ٹیم ویسٹ انڈیز سے۔ برج ٹائون میں چھ روزہ ٹیسٹ(جی ہاں چھ روزہ ٹیسٹ) کالی آندھی ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل رہی تھی حنیف محمد پچ پر ٹک ٹک کر رہے تھے اور سنتے سنتے سننے والے بور ہوچکے تھے تین دن ہوچکے تھے لیکن حنیف محمد پچ پر سب سے زیادہ دیر جمنے کا اور پھر337رن اسکور کرنے کا ریکارڈ بنا رہے تھے۔ اور یہ اننگ سولہ گھنٹے اور دس منٹ سے زیادہ ہوچکی تھی۔ کار دار کے لئے یہ فخر کی بات تھی کہ ان کا نوجوان کھلاڑی ورلڈ ریکارڈ بنا رہا ہے۔ اے ایچ کار دار کا کہنا تھا جب ان سے ایسا کرنے کا پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ کپتان اپنے لئے نہیں اپنے کھلاڑیوں اور ملک کے لئے کھیلتا ہے۔ اور ان کی یہ بات ایک محاورہ تھی کہ ویسٹ انڈیز579رنز کے مقابلے میں657رنز پاکستان نے بنائے تھے۔ اس میچ کے کھلاڑی تھے امتیاز احمد (وکٹ کیپر) فضل محمود والس میتھائس، محمود حسین، کاردار(کپتان) علیم الدین، حنیف محمد حبیب احسن، نسیم الغنی، سعید احمد، وزیر محمد(حنیف محمد کے بڑے بھائی بتاتے چلیں کہ اس دوسری اننگ میں پہلا وکٹ152رنز پر دوسرا264پر تیسرا418پر گرا تھا۔ ہماری ٹیم پہاڑ کی طرح کالی آندھی کے مقابلے میں ڈٹی رہی تھی اور اس میچ کی تاریخ آج تک زندہ ہے اس زمانے میں کپتان اور نائب کپتان کے علاوہ مینجر ٹور کرتے تھے۔ اور نہ کوئی کوچ تھا اور نہ کسی وزیر کی فیملی ٹیم کے ساتھ عیاشی کرنے جاتے تھے۔ اور یہ سلسلہ کافی عرصہ تک رہا عمران خان آئے اور انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ ویسٹ انڈیز کے ٹور کے بعد وہ دل برداشتہ تھے کہ ضیاء الحق نے انہیں بلایا ٹور پر جانے سے پہلے اور کہا ”اپنا ریٹائرمنٹ روک تو کہ مقابلہ انڈیا سے ہے۔ عمران خان مان گئے اور انڈیا ٹیم لے کر گئے۔ یہ تاریخ ہے کہ صرف اور صرف عمران خان نے انڈیا کے خلاف15میچ کھیلے11برابر رہے اور چار ٹیسٹ جیتے۔ اس ٹور کی ایک اور اہم بات لکھتے چلیں ایک نہیں دو باتیں جنہیں ہم بھول چکے ہیں لیکن آج کے کرکٹ پر قابض سفارشی لوگوں کی وجہ سے کرکٹ کو کینسر ہوچکا ہے اور اس کا ذمہ دار محسن نقوی ہے جو سنا ہے حافظ عاصم منیر کا سالا ہے۔ فی الحال ان بے ایمانوں کو گولی مار کر ہم بتانا چاہتے ہیں کہ کھیل میں اسپورٹ مین اسپرٹ کیا ہے۔ کہ جب انڈیا کے ایک کھلاڑی سری کانت کو آئوٹ قرار دیا تو اس نے احتجاج کیا اور وکٹ پر ٹکے رہے۔ عمران کو ہنسی آگئی اس نے ریفری سے مشورہ کیا اور سری کانت کو وکٹ پر آنے کو کہا۔ لیکن وہ وقار یونس کی بال پر پہلی گیند پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ ہو کر پویلین لوٹ گیا۔ ایسا ہی آسٹریلیا میں ہوا تھا کہ کھلاڑی آئوٹ ہو کر جارہا تھا عمران نے مشتاق سے کہا اُسے واپس لائو۔ مشتاق نے اُسے آنے کو کہا مگر اس نے ارادہ نہیں بدلا۔ لکھنئو ٹیسٹ سے پہلے عمران خان نے دو دن پہلے پچ کا جائزہ لیا جو اسپنر کے فیور میں تھی۔ اسی دن عمران خان نے پاکستان سے عبدالقادر کو کال کیا۔ عبدالقادر اس دور کا بہترین اسپنر تھا۔ اور انڈیا نے جان کرکے ایسی پچ بنائی تھی کہ فاسٹ بالر کامیاب نہ ہوں۔ پاکستان وہ ٹیسٹ جیتا عبدل قادر نے دس وکٹیں لی تھیں یہ بات اب گوگل سے انڈیا والوں نے کال دی ہے اور چار ٹیسٹ ہارنے کا ذکر بھی نکل جائے گا۔ عمران خان نے اے ایچ کار دار کا قول سن رکھا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ عمران خان کھلانا جانتا تھا اور خود بھی کیپٹن اننگ کھیلتا ہے جو کیپٹن کی پہچان ہے۔ یہ چند مثالیں دینے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم فوج، جنرلز یا حکومت کی چنڈو گیری سے خائف ہیں اور نہ ہی کوئی ذاتی مسئلہ ہے صرف اور صرف جو بھی ٹیم کو اور ٹیم کے سلیکشن بورڈ کو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس لئے کہ یہ سب پاکستانی ہیں۔ جذبہ رکھتے ہیں اور جب جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ آہ بکاء ہوتی ہے کرکٹ کے ساتھ چمٹے اور جڑے جو لوگ یہ کچھ کر رہے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں پیسہ بنا رہے ہیں چاہے ٹیم کو بیچنا پڑے یا ملک کو یا اپنی غیرت کو کہتے چلیں کہ اب غیرت عزت، انسانیت اور دشمن کو نیچا دکھانے کی حس سب ختم ہوچکی ہے اور اس کے پیچھے، مال بنانا ہے یہ انکے خون(فطرت) میں آچکا ہے مشرف صاحب نے بھی اپنے ایک دوست کو بورڈ کا چیئرمین بنایا تھا۔ پھر ایک صحافی نجم نقوی کا عمل دخل رہا۔ رمیز راجہ، ذکاء اشرف پہلا کیپٹن اور پہلا ٹیسٹ میچ کب ہوا۔ حنیف محمد کون ہے فضل محمود کون تھا کتنا افسوس ناک امر ہے کہ ایسے جاہل لوگ ملک کو تتر بتر کر رہے ہیں صرف اور صرف پیسوں کی خاطر، سٹے کھیلے جارہے ہیں۔ مال بنایا جارہا ہے اور یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا پاکستان انڈیا سے کاردار اور فضل محمود یا عمران خان کے بعد جیتا ہو۔ کئی بار سیمی فائنل میں ہارے جیتے ہوئے میچ گول جنرل مشرف بھی میچ دیکھ رہے تھے۔ تو آج کا کرکٹ ایک جواء ہے جو پہلے سے طے ہوجاتا ہے اور انڈیا جو سٹےّ بازی میں اول ہے کراچی سے پہلے ہے اس کھیل میں زرداری پیش پیش ہے کہ انجام کے قریب ہے لیکنPATHETICجواری ہے جو کبھی باز نہیں آتا۔ اب جو فیس بک پر کچھ کھلاڑیوں( پرانے) اور لوگوں نے پوسٹ کیا ہے ان کے جزبات کو دیکھ لیں۔
جاوید میاں داد نے ان جواریوں کی اوقات کے تحت پوسٹ ڈالی ہے”جاہل لوگ جب کرکٹ چلائینگے تو ایسے معاملات ہونگے” بابراعظم کپتانی سے ہٹانے کے بعد انہوں نے کہا کوئی رہے یا جائے ان کا کام(پیسے بنانا) پورا ہورہا ہے رضوان نے نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کپتان ہوتے ہوئے ٹورنامنٹ سے باہر ہوتے ہیں تو ہوجائیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لگتا ہے رضوان سرتا پا محسن نقوی کے ہاتھوں بک چکا ہے۔
وسیم اکرم بھھی ناراض تھے بولے” نئے کھلاڑیوں کو لایا جائے” ہم بتاتے چلیں وسیم اکرم صاحب اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہتے تو اچھا تھا کہ کرکٹ کو پرانے کھلاڑیوں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کریں کس نے کھیلنا ہے اسد اللہ خان نے سب ہی کو لپٹا دیا۔ دل کو چھوٹا نہ کریں جب سارے ادارے تباہ ہوچکے ہیں تو کرکٹ کونسی آسمان سے اتری ہے عابد رحمای نے غصّہ اس طرح اتارا ریلوے تباہPIAتباہ، اسٹیل مل تباہ،PTCLتباہ، واپڈاہ تباہ، ہسپتال تباہ، تعلیم تباہ، کسان مزدور چھوٹا تاجر ملازم تباہ، صرف سیاست دان اور اشرفیہ ارب پتی بن چکے ہیں انڈیا کے پرانے کرکٹ کھلاڑی کو بھی موقعہ مل گیا انہوں نے ٹیم کو غیر مستقل مزاج قرار دے دیا۔ شاہد آفریدی بھی بول پڑے۔ ”محسن نقوی کو اپنے سینئرز یا بڑوں سے مشورہ کرنا چاہئے تھا جو انٹرنیشنل کرکٹ کو سمجھتے ہیں اور نظام کو بہتر بنائیں۔ شاہد آفریدی ایسا بھی کہہ سکتے تھے کہ محسن نقوی کو آرمی جنرلز گوشت کی برآمد کا شعبہ دے دیں۔ یہ شخص کرکٹ کی موجودہ تباہی کا باعث ہے ایسا ہی کہ کسی بھنگی کو بہشتی کی مشک دے دی جائے۔ سب جانتے ہیں خرابی کہاں ہے لیکن کہنے کی حرارت نہیں۔
مجید ساہی نے اپنا غصہ یوں نکالا ”کرکٹ فضول کھیل ہے ہمارا قومی کھیل، لوگوں کو لاپتہ کرنا، گھروں پر چھاپے مارنا، عورتوں کو اغوا کرنا، نہتے لوگوں کو گولیاں مارنا، نہیں صاحب یہ سیاسی بات ہوگئی اور حافظ قرآن ہو کر عاصم منیر ایسا کیوں کرینگے۔ جاہلوں سے کہتے چلیں کہ ہم فوج کو نہیں جرنیلوں کو لٹکانے کی بات کر رہے ہیں۔ کسی نے یہ بھی لکھا کہ شاہین شاہ آفریدی ٹیم میں اس وقت سب سے بڑا فسادی ہے جھگڑا تو اور عظیم پرچی ہے وہ کپتان کی سنتا نہیں ان جیبوں کے لئے ایک مشورہ کہ وہ شعیب اختر کی صحبت میں بیٹھیں اور چونکہ عرصہ سے ٹیم میں کوئی۔ کاردار، مشتاق احمد، عمران خان جیسا نہیں تو آپس میں یہ لڑتے رہینگے۔ اور کرکٹ تباہ ہوتی رہے گی ان کے پیسے بنتے رہیں گے، ہاریں یا جیتیں۔
٭٭٭٭٭٭