شکست پاکستانیوں کا مقدر کیوں؟

0
37

شکست پاکستانیوں
کا مقدر کیوں؟

بھارت کے خلاف اہم ترین میچ میں پاکستان کی شکست سے واضح ہے کہ پاکستان میں کرکٹ زوال پذیر ہے۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس سے قوم اپنے جذبات، امیدیں، اور خواب بھی وابستہ کرلیتی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ کھیل کرپشن، اقربا پروری اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں بچا جہاں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہو، اور یہی حال کرکٹ بورڈ کا بھی ہے۔جب بھی پاکستان اور بھارت مدمقابل آتے ہیں ، تو میچ سے قبل ہی پاکستان میچ 80فیصد ہار چکا ہوتا ہے جبکہ بھارت 80فیصد جیت چکا ہوتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اقربا پروری اور مداخلت کا شور ہم سنتے رہتے ہیں، محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین ہیں اور کرکٹ کا کوئی تجربہ ہے نہ ہی اب تک ان کا پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کے حوالے سے کوئی وڑن یا ایسی سوچ سامنے آسکی ہے جو کرکٹ میں،ترقی اور اسے عروج دینے کے حوالے سے قابل ذکر ہو۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست صرف ایک میچ کی ہار نہیں، بلکہ کئی سالوں کے غلط فیصلوں، ناقص حکمت عملی، اور ذاتی پسند و ناپسند کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا مظہر ہے۔ ٹیم ایک متوازن کمبی نیشن کی طرف جا رہی تھی، لیکن پھر ذاتی مفادات اور مخصوص گروپ بندی نے اس عمل کو سبوتاڑ کر دیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شاہد آفریدی جیسے سابق کھلاڑیوں کی مداخلت کے علاوہ ٹیم کا ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں، اور مخصوص کھلاڑیوں کو نوازنے کا عمل تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹ میں ایک اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار جو غلط فیصلہ کر لیا جائے، اسے زبردستی درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بابر اعظم کی تکنیکی مہارت پر کوئی شک نہیں، لیکن کیا وہ فطری اوپنر ہیں؟ ہر بار یہی کہا جاتا رہا، سابق کرکٹرز نے اعتراض کیا کہ بابر سے اوپننگ نہیں کروانی چاہیے، لیکن ٹیم کے مخصوص حلقوں کی ضد اور انا کے باعث یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ بابر اعظم ون ڈے کرکٹ میں نمبر تین یعنی ون ڈاؤن پوزیشن پر دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں، لیکن بطور اوپنر انہیں کھلا کر ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ جدید کرکٹ میں بینچ اسٹرینتھ (متبادل کھلاڑیوں کی صلاحیت) کسی بھی ٹیم کی کامیابی کے لیے بہت اہم ہے۔ بھارت یا آسٹریلیا جیسے کرکٹ کے مضبوط سسٹم رکھنے والے ممالک میں جب بھی کوئی کھلاڑی زخمی ہوتا ہے، ان کی ٹیم میں متبادل کھلاڑی اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال آسٹریلیا کی ٹیم ہے، جہاں پیٹ کمینز، مچل سٹارک، جاش ہیزل وڈ اور مچل مارش انجری کی وجہ سے باہر ہیں، پھر بھی ان کی ٹیم ناقابل شکست ثابت ہو رہی ہے۔مگر پاکستانی ٹیم میں اس کے برعکس دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب چیمپئنز ٹرافی میں صائم ایوب اور فخر زمان جیسے اہم کھلاڑی زخمی ہوئے تو پوری ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوئی کیونکہ ان کی جگہ لینے والے کھلاڑی اتنی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جتنا ان دونوں کا کھیل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ہر میچ کے بعد اپنے کمبی نیشن کو ترتیب دینے میں مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ متبادل کھلاڑیوں کی تیاری پر ٹھوس توجہ نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کے کھیل میں مشکلات آتی ہیں، اور اس کا اثر ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ دنیا کی دیگر ٹیمیں جدید کرکٹ کی جانب بڑھ رہی ہیں، لیکن پاکستان آج بھی پرانے اور روایتی انداز میں کھیلنے پر مجبور ہے۔ ہم 2025 میں بھی 1980 کی کرکٹ کھیل رہے ہیں، جہاں اسٹرائیک ریٹ، فٹنس، اور مثبت کرکٹ کے بجائے دفاعی حکمت عملی کو اپنایا جاتا ہے۔ انگلینڈ، آسٹریلیا، اور بھارت کی ٹیمیں جدید کرکٹ کے تقاضوں کو سمجھ چکی ہیں، لیکن پاکستان میں آج بھی وہی پرانی سوچ غالب نظر آتی ہے، جس میں اننگز کو بچانے کے چکر میں پوری ٹیم دباؤ میں آ جاتی ہے۔ پاکستان میں کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ لوگوں کے جذبات اس سے وابستہ رہے ہیں۔ جب پاکستانی ٹیم جیتتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے، جب ہارتی ہے تو غم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ عوام کرکٹ سے بیزار ہو چکے ہیں۔ شائقین جو پہلے ہر میچ کے لیے پرجوش رہتے تھے، اب بے دلی سے میچ دیکھتے ہیں، کیونکہ انہیں پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ وہی قوم ہے جو 1992 کے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی جیت پر گلیوں میں نکل کر خوشی مناتی تھی، لیکن اب شکست پر افسوس کے بجائے غصہ اور مایوسی محسوس کرتی ہے۔ 2021 کے بعد سے پاکستان کو بھارت کے خلاف مسلسل شکست کا سامنا ہے، جس نے شائقین کو شدید مایوس کر دیا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں بھارت نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو ہرایا، پھر ایشیا کپ 2023 میں بھارت نے 228 رنز سے بدترین شکست دی۔ ورلڈ کپ 2023 میں بھی پاکستان دباؤ میں آکر 7 وکٹوں سے ہار گیا۔ حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں ایک اور شکست نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکـبھارت میچز اب یکطرفہ ہو چکے ہیں۔ پاکستانی کسی بھی ٹیم سے شکست برداشت کر سکتے ہیں، مگر بھارت کے ہاتھوں ہار ہمیشہ ناقابل قبول رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کرکٹ سے اکتا چکی ہے، کیونکہ ہر بڑے ایونٹ میں بھارت سے مسلسل ہار نے شائقین کا جذبہ اور دلچسپی ختم کر دی ہے۔وجہ صاف ہے، پاکستانی عوام کو اندازہ ہو چکا ہے کہ کرکٹ میں اب میرٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ٹیم میں شمولیت کا معیار کارکردگی نہیں بلکہ تعلقات، سفارش، اور سیاست بن چکا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ دیگر ٹیمیں جدید تقاضوں کے مطابق کرکٹ کھیل رہی ہیں جبکہ پاکستانی ٹیم اب بھی پرانی روش پر گامزن ہے۔ جب تک اس کا سدباب نہیں کیا جائے گا، عوام کرکٹ سے بیزار اور کھلاڑیوںسے بددل رہیں گے۔ اگر واقعی پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانا ہے تو سب سے پہلے سسٹم کو درست کرنا ہوگا۔ میرٹ کی بنیاد پر سلیکشن، کوچنگ، اور قیادت کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ کرکٹ کو سیاست اور ذاتی پسند ناپسند سے نکال کر خالصتاً پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلانا ہوگا۔ اگر یہی حالات رہے، تو پاکستان صرف میچز ہی نہیں، بلکہ اپنی کرکٹ کی ساکھ بھی ہار جائے گا۔ہم ہر ٹورنامنٹ کے بعد چند دن تک واویلا کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں، سابق کرکٹرز چیختے چلاتے ہیں، لیکن پھر سب بھول جاتے ہیں۔ پی سی بی کے کرتا دھرتا ٹس سے مس نہیں ہوتے، اور چند دن بعد حالات پہلے جیسے ہو جاتے ہیں۔ یہی رویہ پاکستان کرکٹ کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کادوبارہ عروج پر دیکھنے کا خواب صرف اس وقت پورا ہو سکتا ہے جب نظام کو ٹھیک کیا جائے۔ ٹیم کے فیصلے بغیر کسی دباؤ کے، میرٹ اور پیشہ ورانہ مہارت کو مدنظر رکھ کر کرنے ہوں گے۔ دلیر اور جدید کرکٹ کو سمجھنے والے کھلاڑیوں کو مواقع دینے ہوں گے تاکہ ہم ایک ایسی ٹیم تشکیل دے سکیں جو دنیا کی بہترین ٹیموں کا مقابلہ کر سکے، نہ کہ ماضی کی ناکام پالیسیوں کے تحت کھیلنے پر مجبور ہو اگر یہ سب نہ ہوا، تو اگلے چند سالوں میں پاکستان کرکٹ مکمل زوال کا شکار ہو سکتی ہے، اور شاید وہ دن بھی آئے جب کرکٹ عوام کے لیے محض ایک بھولی بسری یاد بن جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here