اور اب اسرائیل نے قطر کو جو امریکا کا ایک نہایت قریبی حواری تھا اُسے بھی ایک اذیت ناک سبق سکھا دیا۔ ٹھیک ہے اسرائیل کے ہدف قطری نہیں حماس کے رہنما تھے۔ اسرائیل نے حماس کے ہزاروں فوجیوں کو ، اُس کی فوج کے سینئر کمانڈرز کو ہلاک اُس کے اسلحہ کے تمام ذخیرے کو اُس کے زیر زمین سرنگ کے نیٹ ورک کو تباہ و برباد کرچکا ہے۔ مقامی ہیلتھ کی وزارت نے جو اعداد وشمار جاری کئے ہیں اُس کے تحت 7 اکتوبر 2023 ء لے کر اب تک ساٹھ ہزار فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں۔ گذشتہ منگل کے دِن اسرائیل کا فضائی حملے کے ذریعہ حماس کے رہنماؤں کو قطر کے دارلخلافہ دوحہ میں ہلاک کرنے کا اقدام جنگ کی شدت میں مزید تیزی لانے کا سبب بن گیا ہے اور اِس میں امریکا کے قریبی دوست ملک اور ثالثی جو تصادم کو ختم کرنے کی کوشش کررہے تھے بھی ملوث ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کا قطر پر براہ راست فضائی حملہ قطر کی حکومت کیلئے تشویش کا باعث اور سفارتی کوششوں کے ذریعہ غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کیلئے کام کرنے کی صلاحیت کو مفقود کردیا ہے۔ میڈیا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں حماس کے رہنماؤں نے اِس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے کبھی اسرائیل کو میدان جنگ میں شکست دینے کے بارے میں تصور کیا تھا، البتہ اُن کی سوچ کا ادراک یہ تھا کہ بین الاقومی قومیں اِس جنگ میں شامل ہوجائینگیں۔ بہرکیف دیر یا سویر اسرائیل پر یہ حقیقت افشا ہوجائیگی کہ اُس کی پالیسی فلسطینیوں کے ضمن میں غیر حقیقانہ اور ناپائیدار ہے۔ ہتھیار ڈال دو جیسا کہ اسرائیل اور امریکا مطالبہ کر رہے ہیں حماس کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ حماس کے مسلح بازو کے ایک رہنما عِز الدین الحداد نے کہا کہ اگر وہ اسرائیل سے ایک عزت مندانہ سمجھوتہ کرنے میں ناکامیاب ہوجاتے ہیں تو حماس کی یہ جنگ آزادی کی جنگ میں تبدیل ہوجائیگی۔ حماس کا ادراک عزت مندانہ سمجھوتہ کے بارے میں یہ ہے کہ جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور حماس پھر غزہ میں اپنے اقتدار کا مظاہرہ کر سکے۔ ماضی میں حماس اسرائیل کے ساتھ عارضی جنگ بندی پر راضی ہوگیا تھا تاکہ غزہ کے فلسطینیوں کو غذا اور پانی مہیا ہوسکے۔ لیکن اِس نے اسرائیل کی اِس پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا تھا جس کے تحت یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ حماس کے جنگجو ہتھیار ڈال دیں اور اُسکے رہنما جلا وطن ہوجائیں۔ تازہ ترین صورتحال میں ایسا کوئی شائبہ موجود نہیں کہ حماس ہتھیار ڈالنے کے بارے میں غور و خوض کر رہا ہو۔ اِسی ہفتے حماس نے ایک پریس ریلیز جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک ایسے سمجھوتے پر رضامند ہے جس کے تحت حماس غزہ میں باقیماندہ سارے یرغمالیوں کو رہا کردیگاجس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرکے جنگ بندی پر راضی ہوجائے اور غزہ سے اپنی فوج کو واپس بلا لے۔ لیکن اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا یہ عزم ہے کہ وہ حماس کو طاقت کے زور پر یا کسی سمجھوتے کے ذریعہ ختم کردینگے اور اُنہوں نے کسی بھی ایسے سمجھوتے کو مسترد کردیا ہے جس کے بعد حماس کا ڈھانچہ اُسی طرح سے قائم و دائم رہے جیسا کہ وہ 7 اکتوبر کے دِن تھا۔ تاہم اسرائیل اور حماس کا ناقابل مصالحت رویہ اِس شک و شبہ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ایک فریق کو طاقت کے ذریعہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حماس کے سیاسی تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ بالآخر اسرائیل ایک ایسے سمجھوتے پر راضی ہوجائیگا جو حماس کے وجود کو قائم رکھے تو اُسے کوئی ضرورت نہیں کہ اِس سے کم پر وہ ہتھیار ڈال دیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ جاری رکھنا ایک مہنگا سودا ہے
اِسلئے اگر حماس صبر و تحمل سے کام لے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے تو وہ کسی ایسے سمجھوتے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائینگے جس میں اُن کی بقا ہو۔ حماس کو غزہ میں اپنی قوت کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ رعایت دینی پڑے گی مثلا”مستقبل میں اُسے فوج میں بھرتی کو منقطع کرنا پڑے گا، اور اپنے اسلحہ کے
ذخائر کو اسٹوریج میں رکھنا پڑیگایا کسی تیسرے فریق کے ماتحت حوالہ کرنا پڑے گا۔
قطر پر اسرائیل کا فضائی حملہ نیتن یاہو کے چہرے سے نقاب اُتار دیا ہے۔ امن کے سمجھوتے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دینا صرف اُن کا وطیرہ ہے۔ وہ ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں اُن کے باقیماندہ یرغمالی واپس مل جائیں اور وہ حماس کو بھی ختم کر ڈالیں۔ تاہم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اُنہیں اُن کے یرغمالی صرف اور صرف پُر امن حماس سے معاہدے کے تحت ہی مل سکتے ہیں۔
حماس نے یرغمالیوں کو پہلے ہی اِس شرط پر رہا کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہوجائے لیکن نیتن یاہو اِسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ سابق امریکی سفارتکاروں کا یہ کہنا ہے کہ قطر پر اسرائیل کا حملہ امن کے معاہدے میں جان ڈالنے اور یرغمالیوں کی رہائی کی بھی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔ اُن کے خیال میں نیتن یاہو کی خواہش ہے کہ حماس کے رہنما جو قطر میں ہیں اُن کو نظر انداز کرکے اُس کے وہ کمانڈروں کو جو جنگ کے میدان میں ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مصری اور قطری سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ حماس کے وہ کمانڈرز جو غزہ میں ہیں امن کے معاہدے میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بجائے اُن کے جو قطر کے محلوں میں مقیم ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد امن کیلئے امریکا کی پیش کردہ تجویز کو تسلیم کرلے اور تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر جنگ بندی کیلئے رہا کردے ، تاکہ مستقلا”امن قائم ہو سکے۔












