پاکستان نے چین کے قریب آنے کے باعث واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو ناراض کیا ہے، جن میں چینی اسلحہ خریدنا اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری حاصل کرنا شامل ہے۔ ایسے اقدامات سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ اسلام آباد نے بیجنگ کے دائرہ اثر میں چلے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نتیجتا، بہت سے امریکی حکام نے اسے درست سمجھا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری بھارت پر مزید مرکوز کریں اور پاکستان کو نظرانداز کریں۔ لیکن یہ نقطہ نظر پاکستان کی پوزیشن کو غلط انداز میں پڑھنے کے مترادف ہے۔یقینا پاکستان اپنی اقتصادی اور سٹریٹجک شراکت داری کو چین کے ساتھ بہت اہمیت دیتا ہے اور اگر اسے محض بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک دوٹوک انتخاب کرنے پر مجبور کیا جائے تو شاید وہ چین کی طرف زیادہ جھکاو دکھائے۔ لیکن اسلام آباد نے امریکی اور چینی حکام دونوں کو بارہا یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں نہیں پھنسنا چاہتا۔ مئی میں بھارت اور پاکستان کی جھڑپوں نے اس پالیسی کے نتائج واضح کر دیے۔ بھارت پاکستان کو فوجی لحاظ سے پچھاڑنے میں ناکام رہا کیونکہ پاکستانی افواج نے مقامی، چینی اور مغربی ٹیکنالوجی کو یکجا کر کے بھارتی فضائیہ کو پسپا کر دیا اور متعدد طیارے مار گرائے۔ یہی وہ پاکستانی فوج ہے جو سرد جنگ کے دوران تقریبا مکمل طور پر مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی تھی۔ آج پاکستان کی 80 فیصد نئی اسلحہ درآمدات چین سے آتی ہیں۔ امریکہ کے نقطہ نظر سے تشویشناک امر یہ ہے کہ بھارت اپنی زیادہ توجہ اور توانائی پاکستان کے ساتھ دشمنی پر ہی صرف کرتا رہے گا۔یہ سچ ہے کہ جب تک بھارت پاکستان کے ساتھ بحران زدہ تعلقات میں جکڑا رہے گا، دونوں فریق ایک دوسرے کو گھورتے رہیں گے اور قیمتی وسائل کو ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوششوں میں ضائع کرتے رہیں گے۔ امریکا کی جانب سے بھارت کو سہارا دینے کی کوششیں ایک ناپسندیدہ نتیجہ پیدا کریں گی، جس سے اسلام آباد واشنگٹن کے ارادوں پر بدگمان رہے گا جبکہ بھارت کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی کہ وہ پاکستان سے آگے دیکھے اور اپنی توجہ چین پر مرکوز کرے۔ اس منفی دائرے سے نکلنے کے لیے، ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ ان جنوبی ایشیائی حریفوں کو بامقصد مذاکرات پر آمادہ کریں ۔ 2022 میں پاکستان نے اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی جاری کی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کو کسی بھی جغرافیائی سیاسی کیمپ کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے بعد سے اسلام آباد اسی راہ پر گامزن ہے اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز میں کھڑکی کھولی تو پاکستانی قیادت نے پرجوش انداز میں اس کا خیرمقدم کیا۔پاکستان کا یہ موقف محض مجبوری کا نتیجہ ہے۔ اس کی معیشت بہت زیادہ چین اور امریکا دونوں پر منحصر ہے، اس لیے وہ کسی ایک کو ترک نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ گزشتہ چند دہائیوں میں امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نے پاکستان کا انحصار چین پر بڑھایا ہے، لیکن اسلام آباد اب بھی امریکی نیک نیتی پر بھروسہ کرتا ہے تاکہ کثیرالجہتی اداروں، خصوصا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، کے ذریعے اپنی کمزور معیشت کے لیے ضروری مالی مدد حاصل کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ چین کا تعلق امریکا کے لیے خطرے کے بجائے ایک موقع فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان میں برسوں سے چینی شہریوں کے قتل کے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سے اکثر کے پیچھے پاکستانی حکام کے مطابق بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ ان واقعات نے چین کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے چینی نجی سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی اجازت طلب کرے۔
حقیقت میں پاکستان کو چین سے دور کرنے کی کوئی بھی کوشش الٹا اثر ڈالے گی۔ اور پاکستان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت امریکا کا ایک اہم شراکت دار رہے گا، چاہے اس وقت دونوں میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں۔یقینا امریکا-پاکستان تعلقات میں ایسا ری سیٹ حالیہ برسوں میں واشنگٹن کے رویے سے ایک بڑا انحراف ہوگا۔ لیکن اس تناظر میں ٹرمپ کی روایت شکن فطرت فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ بالآخر، اگر امریکا اپنی موجودہ بھارت مرکوز پالیسی پر قائم رہتا ہے تو وہ نہ صرف پاکستان بلکہ آنے والے برسوں میں پورے جنوبی ایشیا کو کھو سکتا ہے۔ اسلام آباد نے اب تک بیجنگ کو ناراض کرنے کے خطرے کے باوجود یہ اجازت نہیں دی، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایسا اقدام واشنگٹن میں مزید بداعتمادی اور دشمنی کو ہوا دے گا۔پاکستان کا علاقائی وژن ان فالٹ لائنز کو مزید گہرا ہونے سے روکنے کا ایک حل فراہم کرتا ہے۔ اس کی قومی سلامتی پالیسی کا مقصد پاکستانی سرزمین کو امریکا، چین اور حتی کہ بھارت کے اقتصادی مفادات کا سنگم بنانا ہے۔ اگرچہ یہ ایک بلندپرواز سوچ ہے، لیکن اس سے جنوبی ایشیا کے دو ارب انسانوں کے لیے ایک انقلابی نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ پاکستان کی فطری دلچسپی اس بات میں ہوگی کہ اس کی سرزمین بڑی طاقتوں کے لیے میدانِ جنگ نہ بنے اور وہ چین اور امریکا کو ایک دوسرے کی سرخ لکیروں کو عبور کرنے سے باز رکھے،مثلا گوادر میں چینی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی یا امریکا کی جانب سے بھارت کے ان دعووں کی تائید کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزرتی ہے، اس لیے بھارتی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ مزید یہ کہ اگر بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں تو بھارت وسطی ایشیا سے جڑنے کے لیے پاکستان کی زمینی راہداری استعمال کر سکے گا، جو نئی دہلی کی ایک دیرینہ خواہش رہی ہے۔ پاکستان کے پاس موجود وسیع معدنی ذخائر بھی امریکا کی توجہ کا مرکز ہونے چاہئیں۔ امریکا نے پہلے ہی ریکو ڈک کی کان میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جہاں دنیا کے سب سے بڑے خام تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں۔ چینی کمپنیاں بھی علاقے کے مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور ریکو ڈک میں سرگرمیاں شروع کرنے کی خواہش مند ہیں، جو صوبہ بلوچستان میں واقع ہے ،یہ افغانستان کی سرحد سے متصل ہے۔ بلوچستان حالیہ برسوں میں دہشت گردی اور شورش سے دوچار رہا ہے، امریکا اور چین کی مشترکہ مدد پاکستان کو صوبے کو مستحکم کرنے اور تشدد کو روکنے میں مدد دے سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک عملی بقائے باہمی شاید امریکا کے لیے سب سے بہتر نتیجہ ہو سکتا ہے، بھارت کی محدود صلاحیتوں اور چین کے مقابل توازن قائم رکھنے کے لیے۔ اس مستقبل پر غور کرتے ہوئے واشنگٹن اور اسلام آباد کو ابتدا ہی سے حقیقت پسندانہ توقعات رکھنی چاہئیں۔ پاکستان کو امریکا پر واضح کر دینا چاہیے کہ اس کی موجودہ معاشی حقیقتیں اسے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان انتخاب کی اجازت نہیں دیتیں؛ اسے دونوں کی ضرورت ہے۔ امریکا کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ چین پاکستان کا ایک اہم شراکت دار رہے گا۔
٭٭٭












