افغانستان سے در اندازی کی کوشش ناکام!!!

0
33

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغانستان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر فتنہ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے کم از کم 25 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں چار خودکش بمبار بھی شامل تھے۔ یہ واقعہ 24 اور 25 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب پاک افغان سرحد کے قریب اس وقت پیش آیا جب خوارج کے دو بڑے گروہ پاکستان میں داخلے کی کوشش کر رہے تھے۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے پانچ سپوت جامِ شہادت نوش کر گئے۔ ان کارروائیوں کے ذریعے خوارج کے ایک واضح منصوبے کو اس وقت ناکام بنایا گیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے وفود استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور میں مصروف تھے ۔ یہ امر بذاتِ خود عبوری افغان حکومت کے ارادوں پر بنیادی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا وہ خوارج کے خلاف کسی حقیقی عزم کی حامل بھی ہے یا نہیں۔ پاکستان مسلسل عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرے، بارڈر مینجمنٹ کو موثر بنائے اور افغان سرزمین کو خوارج کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ مگر عملا صورت حال یہ ظاہر کرتی ہے کہ سرحدی بیانیہ اور عملی کنٹرول دو الگ حقائق بن چکے ہیں۔ خوارج کی طرف سے دراندازی کی یہ تازہ کوشش پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے صرف ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ ایک سفارتی مقدمہ بھی ہے، جو استنبول مذاکرات کے تناظر میں مزید وضاحت اور سختی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ جب دونوں ملک وفود کی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے کے حل پر گفتگو میں مصروف ہوں اور اسی دوران خوارج سرحد عبور کرنے کی کوشش کریں تو یہ واضح پیغام ہے کہ یا تو افغان سرزمین خوارج کے عملی کنٹرول میں ہے، یا پھر عبوری حکومت نے عملا آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان داخلی امن کے باب میں ہارڈ اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کرنے کے سلسلے میں متواتر اقدامات کر رہا ہے۔ بلاشبہ، عسکری سطح پر خوارج کے انفراسٹرکچر کو ختم کرنا اور دراندازی روکنا ناگزیر ہے تاہم یہ امر بھی کم ناگزیر نہیں کہ اسی اقدام کو سفارتی سطح پر دلیل اور ثبوت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا جائے، تاکہ یہ تاثر قائم رہے کہ مسئلے کا مرکز پاکستان کے اندر نہیں بلکہ اس پار موجود ہے۔ پاکستان کے لئے اس موقع پر پسپائی سفارتی غلطی ہو گی، کیونکہ اس وقت سفارت کاری کی قدر اسی ملک کی بات میں وزن رکھتی ہے جس کے پاس فیلڈ کی سطح پر ثبوت بھی موجود ہوں اور پاکستان کے پاس وہ موجود ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی موجودگی میں خوارج کی دراندازی نہ صرف اعتماد شکنی ہے بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ عبوری افغان حکومت کا داخلی نظم کم از کم اس معاملے میں ناقابلِ اعتبار ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اس عدمِ اعتبار کو رسمی شکل دے ۔ زبانی تنبیہات نہیں، بلکہ تحریری سفارتی اقدامات، واضح شرائط اور دوحہ کے تناظر میں قابلِ پیمائش اہداف کا مطالبہ کرے۔ جب تک بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت سے بلاواسطہ پوچھا نہیں جاتا کہ دوحہ معاہدے میں ان کی دستخط کے ہوتے ہوئے خوارج کی دراندازی کیسے ممکن ہوئی، تب تک مذاکرات کی میز محض رسمی مشق بن کر رہ جائے گی۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اگر پاکستان اس مرحلے پر سخت سفارتی لہجہ اختیار نہیں کرتا تو داخلی سطح پر امن کے لیے کی جانے والی قربانیوں اور آپریشنز کے سفارتی ثمرات ضائع ہو جائیں گے۔ عسکری ردِ عمل اور سفارتی ردِ عمل ایک دوسرے سے منقطع نہیں رہ سکتے۔ عسکری کامیابیاں سفارت کاری کیلئے سرمایہ ہوتی ہیں اور اگر یہ سرمایہ سفارتی زبان میں منتقل نہ ہو تو دنیا کی نظر میں سارا تنازع دو ہمسایہ ریاستوں کے اندرونی انتظامی مسائل کی سطح تک محدود ہو جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ سرحد کے اس پار سے جنم لے رہا ہے اور پاکستان محض دفاعی ردعمل دے رہا ہے۔ پاکستان کو اب جس لے کی ضرورت ہے وہ نرم فہم بیانیہ نہیں بلکہ کاغذ پر لکھی گئی سخت شرائط ہیں یعنی اسٹیٹ ڈپلومیسی وہ شکل اختیار کرے جس میں عبوری افغان حکومت سے تحریری ضمانت طلب کی جائے کہ خوارج کے لانچنگ پوائنٹس ختم کئے جا چکے ہیں، ورنہ مذاکرات کا موجودہ ڈھانچہ معطل سمجھا جائے گا۔ سفارتی سطح پر نو مور ورڈز، آنلی میڑریبل اسٹپس کی پالیسی وضع کر کے اس کی باضابطہ اطلاع دی جائے۔ پاکستان صرف یہ نہ کہے کہ افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے، بلکہ یہ بھی کہے کہ اگر ایسا جاری رہا تو پاکستان مذاکرات کو ناکام تصور کرے گا ۔ یہ واقعہ اصل میں ایک وارننگ ہے کہ داخلی امن کا قضیہ اب یکسر افغان طرز عمل سے جڑا ہوا ہے۔ اب عسکری محاذ پر کامیابی کو سفارتی مسودے میں ڈھالے بغیر کوئی قابلِ دوام نتیجہ نہیں نکلے گا۔ پاکستان کو استنبول مذاکرات کو بطور دلیل دنیا کے سامنے زیادہ نمایاں انداز سے رکھنا ہوگا تاکہ واضح ہو کہ جب پاکستان میز پر بیٹھ کر امن کی قیمت ادا کر رہا تھا، اسی لمحے خوارج سرحد پار سے داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس تضاد کے بعد اب مبہم زبان کے بجائے صفحہ کاغذ پر واضح شرائط اور نتائج لکھنے کا وقت ہے۔ یہی سخت مگر ذمہ دارانہ پالیسی اس وقت ملک کے مفاد میں ایک ناگزیر انتخاب ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here