سرکاری اعلان ہواہے، سچ بولو !!!

0
5

گزشتہ چند دنوں سے بہت بڑی تعداد میں میرے دوست رابطہ کر کرکے بس ایک ہی سوال پوچھتے پھر رہے تھے، آپ کا نوٹیفکیشن کب ہوگا؟ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا پھر کسی سمجھدار فرد نے سمجھایا کہ اس دنیا کے فرعونوں کو بھی ایک نہ ایک دن، نوٹیفکیشن کی ضرورت پڑ جاتی ہے، تم کس باغ کی مولی ہو۔ میں نے گھبرا کر نوٹیفکیشن کا مطلب شیخ گوگل سے پوچھا کہ اردو میں اسے کیا کہا جائے گا۔ گوگل بے چارہ بھی الجھ گیا اور کوئی تین چار مطلب بتائے۔ اطلاع، اعلان وغیرہ وغیرہ۔ ایک اردو دان دوست کو کال کیا۔ اس نے اعلامیہ کا اضافہ کردیا۔ یہ سارے ترجمے، ہمیں اس مطلوبہ نوٹیفکیشن کا صحیح مفہوم ادا کرتے ہوئے نظر نہ آئے تو ہم نے مزید مشاورت کرکے سرکاری اعلان یا شاہی فرمان کی اصطلاحات پر اکتفا کر لیا۔ اب چونکہ نہ میں کسی سرکار کا ملازم ہوں اور نہ ہی کسی بادشاہت میں رہائش پذیر ہوں، اس لئے نوٹیفکیشن حاصل کرنے کی مجھے کوئی ضروت نہیں ہے۔ الحمدللہ ۔ ورنہ جوش کا یہ شعر ہمیں ہر وقت خوف ہی دلاتا رہتا۔
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں
وطنِ عزیز پاکستان کی مقتدرہ، ہمارے موجودہ وطن امریکہ کی حکومتوں کے زیرِ اثر رہتے ہوئے ہمیشہ بڑی طاقتور سمجھی جاتی ہے۔ اسی لئے ہم بھی گزشتہ کئی مہینوں سے یہی سمجھ رہے تھے کہ بین الاقوامی حالات کی وجہ سے اب ملکِ پاکستان میں امن و سکون کی فضا ہوگی اور قیدِ تنہائی میں محبوس قیدی نے بھی اپنے مقدر سے سمجھوتا کرلیا ہوگا۔ پاکستانی عوام سے تو ہم ہمیشہ مایوس ہی رہتے رہے ہیں کہ وہ حبیب جالب کے ان اشعار کے مطابق،
یہ جو دس کروڑ ہیں، جہل کا نچوڑ ہیں!
ان کی فکر سو گئی، ہر امید کی کرن، ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے، ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں، زندگی کا روگ ہیں
ایک مستند شاعر کے ان خیالات کے باوجود بھی جب انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی تو محسوس ہوا کہ ہمارے اندازے کچھ غلط ثابت ہو رہے ہیں اور پاکستانیوں کی نئی نسل نے تو مقتدرہ کا بھرکس نکال دیا ہے۔ عوام نے تو بندوق سے ڈرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جن بڑے عہدیداران کو ہم بہت متمدن اور مہذب سمجھتے تھے، وہ تو کھلم کھلا گالم گلوچ پر اتر آئے ہیں۔ اندرونِ خانہ ہونے والی کشمکشیں، اب زبان زدِ عام ہیں۔ پاکستان کی کمزور ترین عدلیہ کے ذریعے تاحیات استثنا حاصل کیا جا رہا ہے تاکہ عوام فرعونوں پر کوئی مقدمہ دائر نہ کر سکے۔ اس طرح تو کوئی ذہنی مریض بھی نہیں سوچتا، جیسی اس وقت ہماری مقتدرہ کے اعلی ترین افراد کی کیفیت ہے۔ ایک نہتا قیدی اپنی جیل کی کوٹھڑی سے آخر ایسا کیا جادو کر رہا ہوگا؟ اسی قسم کے حالات سے نبٹنے کیلئے ہی تو بیچارے اور بے بس حبیب جالب کو بھی مقتدرہ کو کچھ ایسا دلاسا دینا پڑ گیا تھا۔
دس کروڑ یہ گدھے، جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تو یقین ہے یہ گماں
اپنی تو دعا ہے یہ، صدر تو رہے سدا
اس دوران، تاریکی کے اس ماحول میں، سید مودودی کے شہرِ لاہور میں، جماعتِ اسلامی پاکستان نے اپنا عظیم الشان اجتماعِ عام منعقد کیا۔ لاکھوں لوگ جمع ہوئے۔ امیرِ جماعت حافظ نعیم الرحمان نے اختلافات کے باوجود، اس اجتماع میں کئی بار سیاسی قیدی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ جماعت کی با اصول سیاست کیلئے ایک خوش آئند امر ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ!
ہر ظلم پہ چپ رہنا شرافت نہیں ہوتی
حق مانگنا توہین عدالت نہیں ہوتی
پیتے ہیں لہو خاک نشینوں کا ازل سے
ارباب سیاست کو خجالت نہیں ہوتی
بہرحال کچھ دنوں کی عوامی خوش گپیوں کے بعد مطلوبہ نوٹیفکیشن کا مرحلہ تو ایک بے ڈھنگے انداز سے طے ہو ہی گیا لیکن معمول کے مطابق والے سرکاری اعلان کی بجائے مقتدرہ کو ایک خصوصی اور فوری شاہی فرمان جاری کروانا پڑا، جو کچھ باخبر حلقوں کے مطابق شاید خود ساختہ بھی تھا۔ واللہ اعلم۔ البتہ راحت اندوری کے یہ اشعار، حالات کی صحیح نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے، سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے، سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پہ لکھا ہوا ہے، سچ بولو
گلدستے پر یک جہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو
گنگا میا، ڈوبنے والے اپنے تھے
نا میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بول
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here