وطن عزیز پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے جن کٹھنائیوں سے دوچار ہے، چھوٹی سے چھوٹی خبر خصوصاً ازلی دشمن بھارت مخالف ہم اوورسیز پاکستانیوں کیلئے نوید مسرت و شادمانی اور فخر کا سبب بنتی ہے، گزشتہ اتوار انڈر 19 ایشیاء کپ فائنل میں پاکستان کی کامیابی نے جہاں بھارتی بلند و بانگ دعوئوں کی نفی کرتے ہوئے بھارتی ٹیم کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا وہیں پاکستانیوں کو شادمانی و فخر سے سرشار کیا، 348 رنز کے ٹارگٹ کے جواب میں 156 رنز پر بھارتی ٹیم کے ڈھیر ہونے کے بعد جہاں بھارتی قوم، میڈیا اور مبصرین ماتم کناں تھے وہیں پاکستانیوں کی خوشیاں دنیا بھر میں بے مثال تھیں۔ اس کامیابی پر جہاں انڈر 19 ٹیم کے کپتان سلمان یوسف اور ہیرو سمیر منہاس و دیگر کھلاڑیوں پر ریاستی، حکومتی، میڈیا سمیت تمام قوم صدقے واری ہو رہی تھی وہیں دوسری جانب پاکستان کو واحد ورلڈکپ دلوانے والے اور عوام کے محبوب ترین ہیرو اور اس کی اہلیہ پر ذاتی و سیاسی پرخاش کے سبب 17,17 سال کی سزائوں کا تحفہ دیا جا رہا تھا، خان پر اب تک 55 برس کی قید تھوپی جا چکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات میں مزید سزائوں کا معاملہ ابھی باقی ہے، سوال یہ ہے کہ 73 سالہ خان کو بغض عمرانیہ میں مزید کتنے برسوں تک محض اس بناء پر کہ وہ اپنے نکتۂ نظر اور عوام کے مفاد پر ڈٹا ہوا ہے، پابند سلاسل رکھا جائیگا، سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں دفاعی، معاشی و تجارتی معاہدات عوامی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کے سبب بار آور ہو سکیں گے، قومی اور انتظامی و سیاسی بہتری کی واحد کلید تو اتحاد اور یکجہتی ہے جو موجودہ حالات میںنظر نہیںآتی۔ہم نے اپنے گزشتہ کالم آگ پر تیل نہیں پانی ڈالا جائے، میں استدعا کی تھی کہ فریقین اپنے رویوں، سوچ اور اقدامات پر نظر ثانی کریں تاکہ ملک اور عوام کی بہتری اور یکجہتی یقینی ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اس مطمع نظر کے ناطے نہ مقتدرین و حکومتی حلقے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف کو پُرامن و خوشحال وطن کی خبر ہے۔ دفاعی، تجارتی و معاشی معاہدات یقیناً اچھے اقدامات ہیں لیکن دوسری جانب خان، اس کی اہلیہ اور اس کے سیاسی رفقاء کو سزائیں دیئے جانے کا اقدام جلتی پر تیل ڈالنے کے سواء کچھ نہیں۔ رد عمل کے طور پر سڑکوں پر احتجاج کا اعلان اور وفاق و صوبے کے درمیان متنازع صورتحال خصوصاً موجودہ بیرونی و اندرونی دشمنوں کے حوالے سے کسی طرح بھی وطن عزیز کے مفاد میں نہیں۔ہمیں اس امر کے اعتراف میں کوئی جھجک نہیں کہ فریقین میں طاقتور ہی فتحیاب ہوتا ہے اور موجودہ سیاسی متنازعہ صورتحال بھی اسی حقیقت کی عکاس ہے لیکن اس اظہار میں بھی کوئی عار نہیں کہ مذہبی، انسانی و اخلاقی اقدار کا درس یہی ہے کہ غالب صلۂ رحمی اور درگزر کا راستہ اپنائے، ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ خان اپنی فطرت کی وجہ سے جو قصد کر لے اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا لیکن معروضی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس وقت جب پاکستان تین دشمنوں سے نبردآزما ہے، ساری اکائیاں ایک نکتہ یکجہتی و اتحاد پر اجتماعیت پر آمادہ ہوں۔ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ کسی بھی طرح وطن عزیز کے حق میں نہیں بلکہ دشمنوں کے حق میں جاتے نظر آرہے ہیں قطع نظر اس کے کہ ہر اندرونی و بیرونی محاذ پرہماری عسکری و بہادر قوتیں دشمنوں کو شکست سے دوچار کر رہی ہیں لیکن اس کے عیوض کتنی شہادتوں، مضروبیات اور نقصانات ہمارے حصے میں آرہے ہیں، یہی نہیں ہمارا اخوت و قومیت کا جذبہ بھی متاثر ہو رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سیاسی انتشار و جھگڑوں کے نتیجے میں وطن عزیز میں کسی بھی فریق کیلئے کوئی فائدہ نہیں خواہ وہ مقتدرہ کے بل بوتے پر منحصر حکومت وقت ہو یا عوام کی مقبولیت کا دعویٰ کرنے والی پی ٹی آئی ہو، برصغیر کے مقتدر شاعر شکیل بدایونی کے بقول، مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں، مجھے خوف آتش گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے، سچائی یہی ہے کہ وطن عزیز کیلئے بھارت، افغان رجیم اور دہشتگرد اتنے خطرہ نہیں بلکہ ہمارا سیاسی و اندرونی انتشار و اختلاف زیادہ خطرناک ہے۔ مقتدرین اور سیاسی فریقین کو سوچنا نہیں عمل کرنا ہوگا کہ وطن عزیز امن و آشتی سے ہمکنار ہو یہی ہماری منزل ہے۔
٭٭٭٭٭٭













