کراچی:
نقیب اللہ کے قتل کے مقدمے میں دوسرے عینی شاہد سمیت 2 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے۔
وکلا کی جرح میں گواہوں نے اہم انکشاف کیا، عینی شاہد حضرت علی کا بھائی خطاب پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا جبکہ دوسرا گواہ شروب خان بھی ایک مقدمے میں ملوث نکلا، مدعی کے وکیل نے اپنے موکل کا ویڈیو بیان قلمبند کرانے کے لیے درخواست دائرکردی، انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔
عینی شاہد نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار سے پوچھا کہاں لے جارہے ہو تو اس نے کہا تم لوگوں کو راؤ انوار کے پاس لے جارہے ہیں وہ تم کو جنت میں بھیجیں گے، سینٹرل جیل میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 3 میں نقیب اللہ و ساتھیوں کے قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت دیگر پیش ہوئے جبکہ جیل حکام نے مقدمے میں گرفتار ملزمان کو پیش کیا، مدعی کے وکیل صلاح الدین پہنور اور عینی شاہد سمیت 2 گواہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عینی شاہد حضرت علی نے عدالت میں بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ 3 یا 4 جنوری 2018 کو وہ محمد قاسم کے ساتھ کپڑے خریدنے نکلا، نقیب اللہ کا میسیج آیا کہ ملاقات کرو، ہم آلآصف اسکوائر سردار ہوٹل پر کھڑے تھے، اس نے ہمیں شیرپاؤ ہوٹل پر بلایا، وہاں پہنچے تو ابھی نقیب نے ویٹر کو آرڈر کے لیے بلاکر آرڈر دیا ہی تھا کہ کچھ ہی دیر میں سادہ لباس کپڑے والے اہلکار آئے جن میں سے کچھ نے پینٹ شرٹ اور کچھ نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی ، ہمیں پکڑ کر سچل چوکی لے گئے جہاں مجھے اور محمد قاسم کو الگ جبکہ نقیب اللہ کو الگ رکھا گیا، بعد میں ہمیں آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر 45منٹ کا فاصلہ طے کرکے نامعلوم جگہ منتقل کردیا گیا، دوران سفر جب پوچھا ہمیں کہاں لے جارہے ہو تو ہمیں کہا گیا کہ تم کو راؤ انوار کے پاس لے جارہے ہیں، وہ تم لوگوں کو سیدھا جنت میں بھیجیں گے۔
حضرت علی نے بتایا کہ ہمیں نامعلوم مقام پر ایک کمرے میں رکھا گیا، پیروں میں بیڑیاں ڈال کر تالا لگایا گیا اور یہ کہا گیا جب ہم چلے جائیں تو اپنی پٹیاں کھول دینا جب آئیں تو باندھ لینا،ان کے جانے کے بعد جب پٹیاں کھولیں تو دیکھا نقیب اللہ بھی ہمارے ساتھ ہے، نقیب اللہ نے بتایا کہ مجھے بہت مارا ہے اور 10 لاکھ روپے مانگے ہیں، چھوٹے سے کمرے میں ہمیں رکھا گیا تھا، جہاں رات میں ایک شخص آیا جس نے ہم سے پتہ پوچھا، عینی شاہد حضرت علی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے دن انھوں نے نقیب کو باہرنکالا،تھوڑی دیر بعد نقیب اللہ کے چیخنے کی آوازیں آئیں ہم سمجھ گئے کہ اس پر تشدد ہورہا ہے، کچھ دیر کے بعد ایک بندہ آیا اور مجھے باہر لے گیا، میرے پیر کھول دیے اور ہاتھ پیچھے باندھ دیے، پھر مجھے ایک لکڑی کی ٹیبل پر لٹا کر باندھا اور ناک میں نسوار کا پانی ڈالا یہ کام 6 یا 7 بارکیا، اس کے بعد قاسم کو باہر لے گئے، قاسم کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا، اس کے بعد پھر ہمیں بیٹھا کر پوچھا کہ کام کیا کرتے ہو، پوچھ گچھ کے بعد پھر اسی کمرے میں بند کردیا،ہمیں سچل چوکی واپس لایا گیا اور لاک اپ میں بیٹھا دیا گیا۔
عینی شاہد نے بتایا کہ ایک مونچھوں والا لمبا سا بندہ آیا جس نے ہمیں سامان جو لیا تھا وہ واپس کردیا اور کہا کہ اس کا ذکر کسی سے مت کرنا ورنہ جان سے جاؤگے، 17 جنوری کو سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ نقیب اللہ کو راؤ انوار کی ٹیم نے شہید کردیا، ہم نے سوشل میڈیا پر راؤ انوار کی پریس کانفرنس دیکھی جو آواز سنی اور وہاں جو آواز سنی تھی وہ راؤ انوار کی تھی۔
عینی شاہد حضرت علی نے بیان میں کہا کہ پولیس افسر عابد قائمخانی ہمیں وہاں لے کر گئے تھے جہاں سے اٹھایا تھا، ہم نے مجسٹریٹ کو بیان دیا، عینی شاہد کا بیان مکمل ہونے پر سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے وکیل عامر منصوب نے گواہ کے بیان پر جرح کی، عامر منصوب نے پوچھا کہ اب نے جو پتہ لکھوایا اس میں مستقل رہتے ہیں۔
عینی شاہد نے کہا کہ نہیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور فیملی ساتھ ہوتی ہے اور رہتے اسی علاقے میں ہیں۔ شاکر سید آپ کے والد ایک کیس میں گواہ ہیں، عینی شاہد نے کہا جی بلکل اور میں نے سلطان آباد دیکھا ہے۔
عامر منصوب نے پوچھا کہ آپ کا ایک بھائی خطاب بھی تھا جو پولیس مقابلے میں انتقال کریگا، اس پر پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے کئی مقدمات ہیں اور وہ مفرور تھا، عینی شاہد نے بتایا میرا بھائی خطاب مفرور تھا اور پولیس پر حملوں میں ملوث تھا، مجھے نہیں پتا، وکیل صفائی نے پوچھا کہ جو بیان آپ کو دکھایا جارہا ہے آپ کا ہے، جس کا جواب عینی شاہد نے ہاں میں دیا، راؤ انوار کے وکیل نے پوچھا کیا کہ آپ کو یاد ہے آپ کو کب چھوڑا تھا، دن یاد نہیں لیکن تقریبا 72 گھنٹے کے بعد ہمیں چھوڑا۔
عامر منسوب نے جرح کرتے ہوئے عینی شاہد سے پوچھا کیا کہ آپ نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں تھانے یا اتھارٹی کو بتایا، عینی شاہد نے کیا کہ نہیں میں نے نہیں بتایا،راؤ انوار کے وکیل نے جرح کرتے ہوئے عینی شاہد سے پوچھا 72 گھنٹے آپ غائب رہے کوئی درخواست دی، عینی شاہد نے بتایا کہ درخواست نہیں دی، لیکن میرے والد پیر آباد تھانے گئے اور ایدھی سینٹر گئے تھے۔
وکیل صفائی نے پوچھا کہ آپ نے جو باتیں پولیس افسر کو بتائیں اس پر انگوٹھا لگایا وہی بات عدالت کو بتائی، عینی شاہد نے بتایا جی بلکل وہی بتایا، عامر منسوب نے عینی شاہد سے پوچھا آپ کا بیان کب ہوا، حضرت علی نے بتایا کہ میرا بیان عشاء کے بعد ہوا، میں نے پہلا بیان 23 تاریخ کو دیا۔
وکیل صفائی نے پوچھا انکوائری کمیٹی نے آپ کا بیان لیا تھا یا نہیں، عینی شاہد نے کہا یاد نہیں، جرح میں پوچھے گئے سوال پر عینی شاہد نے کہا کہ میں نے میٹرک کیا ہے، راؤ انوار کے وکیل نے پوچھا کہ پولیس کو دیے گئے بیان نے میں آپ نے نہیں کہا کہ 3 یا 4 جنوری کو آپ محمد قاسم کے ساتھ آصف اسکوائر گئے تھے، عینی شاہد نے کہا محمد قاسم بھی لکھا کپڑے بھی لکھا ہے، وکیل صفائی نے کہا کہ جو میں نے پوچھا ہے وہ آپ کے کے بیان میں موجود نہیں۔ عامر منسوب نے پوچھا کہ پولیس کو دیئے گئے۔
بیان میں آپ نے راؤ انوار کا ذکر نہیں ہے، عینی شاہد نے بتایا کہ جی بلکل نہیں لکھا ہواعینی شاہد نے بتایا میں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی تھی عامر منسوب اور دیگر ملزمان کے وکلا نے عینی شاہد کے بیان پر جرح مکمل کی، اس سے پہلے گواہ شروب خان نے اپنا بیان قلمبند کرایا۔
شروب خان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں 3 یا 4 جنوری 2018 کو اپنے گھر جارہا تھا کہ میں نے دیکھ گل شیر ہوٹل سے سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے 3 افراد کو حراست میں لیا۔ ان میں سے ایک نقیب اللہ کو میں پہچانتا تھا جبکہ ان کے ساتھ 2 پٹھان لڑکے تھے، اس کے بعد وہ عباس ٹاؤن کی طرف چلے گئے تھے اور میں اپنے گھر کی طرف آ گیا تھا، ان میں سے میں کچھ کو شناخت کرسکتا ہوں۔
گواہ کے بیان پر راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب نے جرح کرتے ہوئے پوچھا آپ کب سے کام کررہے ہیں، شروب خان نے بتایا دوہزار تین سے کراچی میں رہائش پذیر ہوں اور کام کررہا ہوں،گھر اور دکان دونوں علی ٹاؤن میں ہے، میرے ماموں نے بتایا کہ پولیس والے بلا رہے ہیں۔
عامر منسوب نے کہا کہ آپ نے پولیس کو جو بیان دیا آپ نے کسی بھی پولیس والے کا حلیہ نہیں بتایا، ملزم کے وکیل نے گواہ شروب خان سے پوچھا کہ کیا آپ کیخلاف مقدمات درج ہیں، گواہ نے کہا ایک سے بری ہوگیا ہوں دوسرے پر ضمانت حاصل کر رکھی ہے،ملزمان کے وکلا نے عینی شاہد حضرت علی اور گواہ شروب خان کے بیانات پر جرح مکمل کرلی۔
راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب نے عینی شاہد حضرت علی اور گواہ شروب خان کے بیان کو من گھرت اور غلط قرار دیدیا، دونوں کے پہلے اور اب دیے گئے بیانات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے، جرح میں انکشاف ہوا کہ عینی شاہد کا بھائی خطاب پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات میں ملاوٹ تھا اور مقابلے میں مارا گیا۔ جبکہ شروب خان بھی ایک مقدمے میں ضمانت پر ہے۔
مدعی مقدمہ نقیب اللہ کے والد محمد خان کے وکیل صلاح الدین پہنور میں درخواست جمع کرائی، دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ میرے موکل بیمار ہیں وہ سفر نہیں کرسکتے لہذا ان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے قلمبند کیا جائے جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی۔