طاہرہ حسین اور اہالیان نیویارک کا مشاعروں کے منتظم، ناظم اور شاعر عبداللہ عبداللہ کو خراج تحسین

0
601

صبیحہ صبائ، اشفاق حسین، تنویر احمد، طاہرہ حسین، پرویشن شبیر، ڈاکٹر شفیق کے مقالے، عارف افضال نے ڈاکو مینٹری پیش کی،شرکاءکا اظہار پسندیدگی
مشیر طالب کے منظوم خراج، فرح کامران کی نظامت نے چار چاند لگا دیئے، ڈاکٹر عبداللہ نے اپنی دلچسپ گفتگو او رنظموں اور یونس شرر نے اپنے مقالے سے محفل گرما دی

نیویارک(خصوصی رپورٹ) شمالی امریکہ کے بڑے شہروں میں جہاں ادب اور شاعری کو پروان چڑھانے والے لوگ ہیں وہاں نیویارک میں اردو شاعری، ادب طباعت پر کافی کام ہوا ہے۔ ان میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کا نام بھی پیش پیش ہے اور ان کے منتظمین نے مشاعروں کی شمع جلا کر اردو کو جلا بخشی ہے اور اس ضمن میں طاہرہ حسین کا نام کسی تعریف کا محتاج نہیں جو المنائی کے دوسرے ممبران کے تعاون سے نئے شاعروں کو بھی ہر سال روشناس کراتی ہیں۔ سالانہ مشاعرے کے ذریعے ان مشاعروں کے بانی سب ہی جانتے ہیں ڈاکٹر عبداللہ ہیں جو عرصہ سے اپنی مصروفیات کے باوجود ہمہ تن کوشش کرتے رہتے ہیں اور کنارہ کےا،ا شفاق حسین کےساتھ مل کر پورے شمالی امریکہ میں مشاعروں کے بانی مانے جاتے ہیں۔ طاہرہ حسین نے اس دفعہ ایک اچھوتا قدم اُٹھایا جو وقت کی ضرورت تھا کہ ارد ادب اور شاعری کے محافظ اور مشاعروں کے بانی ڈاکٹر عبداللہ کو خراج تحسین پیش کیا جائے جس کیلئے انہوں نے اہلیان نیویارک کی طرف سے کمیٹی تشکیل دے کر ایک بڑا قدم اٹھایا جو نہ صرف علی گڑھ المنائی کیلئے باعث فخر رہے گا اور نویارک کیلئے فخر کا باعث بنے گا۔ جس کیلئے انتظامیہ پاکستان نیوز، کی بھی شکر گزار ہے جو ہمیشہ ایسے کاموں کی تشہیر کرتے رہتے ہیں۔ یہ پروگرام دیئے گئے وقت 5 بجے اپنے وقت سے صرف آدھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا اور گیارہ بجے اختتام کو پہنچا۔ تقریب کی نظامت پہلے طاہرہ حسین نے ڈاکٹر عبداللہ کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا اور باقاعدہ آغاز کیلئے معروف شاعرہ فرح کامران کو دعوت دی۔ نظامت کیلئے فرح کامران نے ڈاکٹر عبداللہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کیا جو پھولوں کے گلدستہ کے مانند تھی اور اپنی نظامانہ مہارت سے حاضرین کیلئے یہ تقریب دلچسپ بناتی رہیں۔ انہوں نے عارف افضال سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر عبداللہ پر ان کی اردو ادب، شاعری اور مشاعروں کی خدمات اور ہمہ تن کوششوں پر بنائی ہوئی ڈاکو مینٹری پیش کریں اور سب ہی نے اس ڈاکو مینٹری کو سراہتے ہوئے پُرجوش انداز میں تالیاں بجا کر خیر مقدم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر شفیق کو دعوت دی جنہوں نے مشاعروں کے تعلق سے ڈاکٹر عبداللہ سے شکایت کی کہ پاکستانی شعراءکی نمائندگی کم ہوتی ہے۔ ان کے بعد علی گڑھ المنائی کے سیکرٹری اور مشاعروں کے تعلق سے جانا پہچانا نام تنویر احمد آئے جنہوں نے طنزو مزاح کے دلچسپ انداز میں ڈاکٹر عبداللہ کی طالب علمی کے زمانے کی باتیں بتائیں اور تقریب کو دلچسپ بنا دیا۔ منظوم خراج تحسین کیلئے نیویارک میں ایک ہی نام ہے اور وہ ہے مشیر طالب جنہوں نے ڈاکٹر عبداللہ کو اپنی نظم میں خوبصورتی سے پرویا،
یہ میرا شہر، یہ ہم سب کا شہر عبداللہ!
یہ فکر و فہم کے ہمراز، اہل و علم وہ ہنر
خوش آمدید کا پیغام دے رہے ہیں تمہیں
سجائے بیٹھے ہیں محفل تمہارے آنے پر
مشہور فنکار، آرٹسٹ اور شاعرہ پروین مشیر نے آکر طاہرہ حسین کا شکریہ ادا کیا یہ کہہ کر کہ ہم سب کو موقعہ فراہم کیا ہے کہ اس شخص کی پذیرائی کی جائے جو برس ہا برس سے اردو زبان اور شاعری کیلئے انتھک کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے پردیس کو دیس بنا دیا ہے مشاعروں کی بنیاد رکھ کر، ان کی باوقار نظامت المنائی کے مشاعروں کی مرہون منت رہی ہے ۔مندیلا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپ جب مادری زبان میں بات کریں تو دل میں اُترتی ہے بات بنجر زمین کو زرخیز بنانے کا سہرہ بھی ان ہی کے سر ہے۔ ان کی آبیاری کے بعد ایک گھنا شجر بن گئی ہے۔ صبیحہ صباءکسی تعارف کی محتاج نہیں اپنی ڈاکٹر عبداللہ سے ملاقاتوں کے دلچسپ قصے سنائے، پرانی یادوں کا ذکر کیا اور رشیدہ عیاں کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ وہ گو تم ہے جو امن کی تلاش میں برگد کی ڈال ڈال دیکھ رہا ہے اور ان کی شان میں نظم سنائی ،
پیاری پیاری فنکارائیں ناز اٹھوانے آتی ہیں
اگلے برس کے وعدے پر مشکل سے واپس جاتی ہیں
ڈاکٹر عبداللہ کے دیرینہ دوست افضال نے آکر 1984ءسے اب تک کا ذکر کیا اور اشفاق حسین کے تعلق سے بھی واشنگٹن کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جو بطور خاص کینیڈا سے اس تقریب میں شریک ہونے آئے تھے جنہوں نے فیض اور فراز پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ انہوں نے ٹیلیفونک مشاعروں کے دور سے اب تک کے مشاعروں کے عروج کی داستان دلچسپ انداز میں بیان کی یہ کہہ کر کہ کچھ دیوانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیج ڈالنا پڑتا ہے ،آبیاری کی جاتی ہے، تب یہ شجر بنتا ہے۔ عرصہ تک انہیں یہی پتہ نہ چلا کہ ڈاکٹر عبداللہ شاعر بھی ہیں۔ 15 سال کے عرصہ میں انہوں نے ایک مصرعہ بھی نہیں پڑھا اسی پر ان کا گولڈ میڈل بنتا ہے کہ وہ صرف نظامت سے جُڑے رہے مشاعرے کرواناکوئلے کے کاروبار کی مانند ہے جس میں ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے ۔آخر میں فرح کامران نے شمالی امریکہ کے مشہور اور بزرگ شاعر یونس شرر کو دعوت دی جو اپنی علالت کے باوجود خراج تحسین کیلئے آئے تھے ۔انہوں نے کامل احمر، فرح کامران اور طاہرہ حسین کو مبارکباد دی کہ انہوں نے اتنی خوبصورت تقریب سجانے کیلئے ان کے مجموعے ریت کی لہریںکو اردو آزاد شاعری کا ستون قرار دیا کہ ان کی نظموں پر میرا جی کی طرح دبیز پردے نہیں پڑے ہیں۔ انہوں نے ریت سے جو خواب بنے ہیں وہ نیند یا غنودگی میں دیکھے، بلکہ ان خوابوں نے ان کی نیند چھین لی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر عبداللہ کو دعوت دی گئی جس کیلئے شریک محفل منتظر تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ دلچسپ انداز میں اپنی وضعدار آواز سے المنائی کے مشاعروں کا سفر بتایا اور دوران سفر جو صعوبتیں پیش آئیں ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے اپنی منظوم شاعری سے محفل کو سحر انگیز کر دیا۔ امیگریشن، دعا اور دعا، گڈرئیے اور بھیڑیں، اور ٹی پیک، جیسی نظمیں سنا کر شریک محفل کو محظوظ کیا اور لمحات کو جامد کر دیا۔ اس یادگار موقعہ پر ڈاکٹر عبداللہ اور ان کی شاعری، نظامت اور اردو خدمات کیلئے ان کے قریبی اور ان سے واقف لکھاریوں کی تحریروں سے سجا میگزین جو اس حوالے سے 7 مارچ 2020ءکی یادگاری شام کے طور پر یادگار رہے گا اس تقریب کے اختتام پر گروپ فوٹو کا دور شروع ہوا اور شریک محفل کو پُرتکلف طعام کی دعوت دی گئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here